(Yateem Darakht Urdu Novel) یتیم درخت اردو ناول
گاوں کے کنارے پر ایک پرانا درخت کھڑا تھا، جسے ہر کوئی یتیم درخت کہتا تھا۔ وہ درخت قدیم تھا، اس کی شاخیں خشک اور بے رونق ہو چکی تھیں۔ جب گاوں کے بچے دوپہر میں کھیلنے کے لیے باہر نکلتے، تو اس درخت کے پاس سے گزرتے وقت سر جھکا لیتے تھے جیسے وہ ایک ناپسندیدہ وجود ہو۔
گاوں کے بوڑھے افراد اس درخت کے بارے میں کئی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں یہ درخت خوبصورت اور سرسبز تھا۔ اس کے سائے میں لوگ بیٹھ کر کہانیاں سنتے تھے، جانور اس کے نیچے آرام کرتے تھے، اور پرندے اس کی شاخوں میں گھر بناتے تھے۔ لیکن سالوں کے ساتھ، وقت کی گرد نے اس درخت کو ویران کر دیا۔
گاوں میں ایک لڑکا تھا، جس کا نام حسن تھا۔ حسن کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اور وہ اپنے چچا کے گھر رہتا تھا۔ حسن بھی گاوں کے باقی بچوں کی طرح اس درخت سے دور رہتا تھا، لیکن ایک دن وہ درخت کے قریب جانے کا فیصلہ کر بیٹھا۔
اس دن آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، اور ہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگی تھیں۔ حسن اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا تھا اور گاوں کے باقی بچے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہ درخت کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ درخت کا تنہ موٹا تھا، اور اس کی چھال جگہ جگہ سے اتر چکی تھی۔ درخت کی شاخوں پر کوئی پتہ نہیں تھا، جیسے زندگی کا ہر نشان اس سے چھین لیا گیا ہو۔
حسن کو درخت کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا۔ اس نے اپنی ہتھیلی سے درخت کے تنہ کو چھوا اور دل میں ایک عجیب سا احساس ہوا، جیسے وہ درخت بھی تنہا ہو۔ اس لمحے حسن کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ اور درخت ایک جیسے ہیں—یتیم اور دنیا سے الگ تھلگ۔ حسن نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اس درخت کا خیال رکھے گا اور اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔
اگلے دن، حسن نے ایک بالٹی میں پانی بھرا اور درخت کے پاس جا کر اسے سیراب کرنے لگا۔ گاوں کے لوگ حیرت سے دیکھتے کہ حسن روزانہ اس خشک درخت کو پانی دینے جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کا مذاق اڑاتے، تو کچھ اسے پاگل سمجھتے تھے۔ لیکن حسن کے دل میں امید کا بیج بویا جا چکا تھا، اور وہ اس امید کو پروان چڑھانے میں مصروف تھا۔
ہفتے اور مہینے گزر گئے۔ حسن روزانہ درخت کو پانی دیتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا۔ درخت کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی، لیکن حسن ہار ماننے والا نہیں تھا۔ ایک دن، جب بہار کا موسم آیا، تو حسن نے درخت کی ایک شاخ پر ایک ننھا سا سبز پتا دیکھا۔ وہ پتا جیسے حسن کے دل میں ایک نئی زندگی کی نوید لے کر آیا تھا۔
یہ چھوٹا سا پتا حسن کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس نے گاوں والوں کو دکھایا، لیکن زیادہ تر لوگوں نے اس کی باتوں کو اہمیت نہ دی۔ وہ اب بھی اسے اس کوشش میں ناکام سمجھتے تھے۔ لیکن حسن کا عزم مضبوط تھا، اور وہ ہر روز درخت کے پاس جا کر اس کی دیکھ بھال کرتا۔
وقت گزرتا گیا، اور آہستہ آہستہ درخت پر اور پتے اگنے لگے۔ وہ درخت جو کبھی مکمل طور پر ویران تھا، اب دوبارہ سبز ہونے لگا تھا۔ گاوں کے لوگ اس تبدیلی کو دیکھ کر حیران تھے۔ وہ درخت جسے وہ بے جان سمجھتے تھے، دوبارہ زندہ ہو رہا تھا۔ حسن کی محنت اور لگن رنگ لانے لگی تھی۔
پھر ایک دن، درخت کی شاخوں پر پھول کھلنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حسن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاوں والے بھی اب اس درخت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ جو لوگ پہلے اس کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی تعریف کرنے لگے تھے۔ درخت پر پرندے پھر سے آ کر بیٹھنے لگے، اور گاوں کے بچے اس کے سائے میں کھیلنے لگے۔
حسن کو فخر محسوس ہوا کہ اس نے ایک یتیم درخت کو نئی زندگی دی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ درخت کے دل میں زندگی ابھی باقی تھی، بس اسے ایک موقع دینے کی ضرورت تھی۔ اس درخت کی بحالی نہ صرف حسن کی کامیابی تھی، بلکہ یہ گاوں کے لوگوں کے لیے بھی ایک سبق تھا کہ ہر زندہ شے کو محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی بوسیدہ اور ٹوٹا ہوا کیوں نہ ہو۔
درخت اب دوبارہ اس گاوں کی شان بن چکا تھا، اور لوگ اس کے نیچے بیٹھ کر سکون حاصل کرتے تھے۔ حسن اکثر درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچتا تھا کہ اس نے اپنے یتیم دل کو اس یتیم درخت کے ذریعے کیسے سکون دیا۔ دونوں کی زندگی میں تنہائی، درد اور خاموشی تھی، لیکن ایک دوسرے کی مدد سے انہوں نے زندگی کو دوبارہ پایا تھا۔
سالوں بعد، جب حسن بڑا ہو چکا تھا اور اس کے اپنے بچے تھے، وہ انہیں اس درخت کی کہانی سناتا تھا۔ وہ کہانی جو ایک یتیم لڑکے اور ایک یتیم درخت کی تھی، جو دنیا کے سامنے تو شاید بیکار اور بے حیثیت تھے، مگر ایک دوسرے کی مدد سے انہوں نے اپنی حیثیت اور مقصد کو پہچان لیا تھا۔
یتیم درخت اب نہ صرف گاوں کا ایک اہم حصہ تھا بلکہ حسن کے دل میں بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ اس درخت نے اسے سکھایا تھا کہ محبت، صبر اور محنت سے دنیا کی ہر ویرانی کو خوشحالی میں بدلا جا سکتا ہے۔