(Urdu Novel) پراسرار نشان
کراچی کی شامیں ہمیشہ اپنی ہلچل اور رونق کے لیے مشہور ہیں، مگر آج کی شام مختلف تھی۔ شہر کے ایک مشہور علاقے میں، جہاں ہمیشہ رش رہتا ہے، وہاں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ فضا میں کچھ ایسا تھا جو عام نہیں تھا۔
علی حیدر، ایک تجربہ کار صحافی، اپنی موٹرسائیکل پر دفتر سے گھر کی طرف روانہ تھا۔ راستے میں، وہ ایک چھوٹے سے کیفے کے قریب رکا۔ یہ کیفے اکثر لوگوں سے بھرا رہتا تھا، لیکن آج وہاں کوئی نہ تھا۔ علی کو تجسس ہوا۔ وہ کیفے کے اندر گیا تو دیکھا کہ دیوار پر ایک پراسرار نشان بنا ہوا تھا، جیسے کسی نے خاص طور پر اسے وہاں بنایا ہو۔
علی نے اس نشان کو غور سے دیکھا۔ نشان کسی قدیم زبان میں لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ وہ موبائل نکال کر اس کی تصویر کھینچنے لگا، مگر اچانک اس کا فون بند ہوگیا۔ یہ پہلا عجیب واقعہ تھا
کیفے کے مالک، جو اکثر گاہکوں سے دوستانہ رویہ رکھتا تھا، آج چپ تھا۔ علی نے پوچھا، “یہ نشان کب سے یہاں ہے؟”
مالک نے دھیمی آواز میں کہا، “یہ نشان کل رات بنا تھا، اور تب سے عجیب واقعات ہو رہے ہیں۔”
علی نے مزید سوالات کیے، مگر مالک مزید کچھ نہ بولا۔ علی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس نشان کی حقیقت معلوم کرے گا۔
اگلے دن علی نے اپنے ایک دوست، زبیر، سے ملاقات کی جو قدیم زبانوں کے ماہر تھے۔ زبیر نے نشان کی تصویر دیکھ کر کہا، “یہ نشان قدیم فارسی زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ ایک پیغام ہوسکتا ہے، مگر اسے سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔”
رات کو علی جب کیفے کے قریب دوبارہ پہنچا تو اس نے ایک سایہ سا دیکھا جو اس نشان کے قریب حرکت کر رہا تھا۔ اس نے آواز دی، “کون ہے؟” مگر کوئی جواب نہ آیا۔
علی کی تحقیق اسے ایک خفیہ تنظیم کے بارے میں بتاتی ہے جو قدیم خزانوں کی تلاش میں ہے۔ نشان ان کے پیغام کا حصہ تھا، جو خفیہ خزانے کی موجودگی ظاہر کرتا تھا۔
آخرکار، علی نے خفیہ طریقے سے تنظیم کے ایک رکن سے ملاقات کی۔ رکن نے بتایا کہ نشان کسی خزانے کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن اس خزانے تک پہنچنا آسان نہیں۔
علی نے اپنی تحقیق کو مکمل کیا اور نشان کی جگہ پر کھدائی شروع کروائی۔ کئی دنوں کی محنت کے بعد وہاں ایک قدیم صندوق ملا، جس میں دستاویزات تھیں جو تاریخی طور پر بہت اہم تھیں۔
یہ واقعہ علی کے لیے صرف ایک کہانی نہ رہا بلکہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی بن گیا۔
علی نے صندوق کھولنے کے لیے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی مدد لی۔ صندوق میں موجود دستاویزات پر قدیم فارسی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا، جو زبیر کے لیے ایک نیا چیلنج تھا۔ زبیر نے کئی راتیں جاگ کر اس متن کو سمجھنے کی کوشش کی اور آخر کار اس کا ترجمہ کیا۔
ترجمہ یہ بتاتا تھا کہ یہ صندوق ایک قدیم سلطنت کے خزانے کا پتہ دیتا ہے، جو کسی زمانے میں سمندر کے قریب واقع تھا۔ ان دستاویزات میں نقشے اور ہدایات موجود تھیں، مگر ہر ہدایت میں ایک معمہ چھپا ہوا تھا۔ علی کو اندازہ ہوا کہ یہ مہم خطرناک بھی ہو سکتی ہے اور وقت طلب بھی۔
علی اور زبیر نے فیصلہ کیا کہ وہ نقشے کی پہلی منزل تک جائیں گے۔ یہ جگہ کراچی کے نواح میں ایک پرانی غار کے قریب تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں کئی مقامی کہانیاں سننے کو ملیں۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ غار کے قریب جانا خطرناک ہے، کیونکہ کئی لوگ وہاں گئے اور کبھی واپس نہ آئے۔
زبیر نے کہا، “ہمیں کسی بھی صورت وہاں جانا ہوگا۔ یہ ہماری تحقیق کا پہلا قدم ہے۔”
غار کے اندر داخل ہوتے ہی انہیں زمین پر وہی پراسرار نشان نظر آیا جو کیفے کی دیوار پر تھا۔ نشان کے قریب ایک پتھر رکھا ہوا تھا جس پر مزید قدیم تحریر کندہ تھی۔ زبیر نے فوری طور پر اس کا عکس لیا اور ترجمہ کرنے لگا۔ تحریر میں لکھا تھا، “پانی کی سرگوشی سنو، زمین کا راز سمجھو۔”
زبیر اور علی نے غور کیا کہ یہ جملہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ غار کے اندر مزید تفتیش کرتے ہوئے انہیں ایک زیرِ زمین راستہ ملا، جو آگے سمندر کی طرف جا رہا تھا۔ راستہ نہایت تاریک اور خطرناک تھا، مگر علی کی ہمت اور زبیر کی ذہانت نے انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
اس راستے کے اختتام پر انہیں ایک چھوٹا تالاب ملا، جس کے پانی کی سطح پر روشنی کی کرنیں عجیب طریقے سے پڑ رہی تھیں، جیسے کوئی پیغام دینا چاہ رہی ہوں۔ علی نے زبیر کو اشارہ کیا کہ پانی کے قریب جا کر دیکھیں۔ زبیر نے پانی میں جھانک کر دیکھا تو ایک اور نشان نظر آیا جو پانی کی تہہ میں تھا۔
جب علی اور زبیر اس نشان کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، تو اچانک ایک آواز گونجی، “یہ خزانہ ہر کسی کے لیے نہیں۔ جو یہاں آیا، وہ واپس نہیں گیا۔”
علی نے حوصلہ رکھتے ہوئے آواز کی سمت دیکھا تو ایک باریش شخص نمودار ہوا، جو لباس سے کسی قدیم قبیلے کا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے کہا، “یہ خزانہ میرے آبا و اجداد کا ہے، اور میں اس کا محافظ ہوں۔”
زبیر نے آگے بڑھ کر کہا، “ہم خزانے کے لالچی نہیں، بلکہ تاریخ کو محفوظ کرنے کے خواہش مند ہیں۔”
وہ شخص تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر بولا، “اگر تم سچے ہو، تو یہ پہلا معمہ حل کرو۔ اگر کامیاب ہوئے، تو خزانے تک پہنچنے کا اگلا راستہ ملے گا۔”
معمہ یہ تھا: “اگر وقت کے اندر جھانکو، تو ماضی کا راستہ پاؤ گے۔” علی اور زبیر نے اندازہ لگایا کہ یہ پانی کے اندر موجود نشان کا حوالہ تھا۔ زبیر نے نشان کی تصویر لینے کے لیے پانی میں اترنے کی ہمت کی۔
نشان کے قریب پہنچ کر زبیر نے دیکھا کہ اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے دائروں میں کچھ اعداد کندہ تھے۔ ان اعداد کو ترتیب دینا معمہ کا حل تھا۔ زبیر نے جیسے ہی اعداد کو ترتیب دی، ایک خفیہ دروازہ کھل گیا جو تالاب کے نیچے سے دوسری جانب جاتا تھا۔
دروازے کے پیچھے ایک چھوٹا کمرہ تھا، جس کے درمیان ایک پتھر کا صندوق رکھا ہوا تھا۔ صندوق کھولنے پر، انہیں سونے کے سکے، قدیم زیورات، اور تاریخی دستاویزات ملیں جو صدیوں پرانی معلوم ہوتی تھیں۔
وہ شخص، جو خزانے کا محافظ تھا، ان کے پاس آیا اور کہا، “تم نے سچائی اور بہادری سے یہ مرحلے طے کیے ہیں۔ اب یہ خزانہ تمہاری امانت ہے، مگر وعدہ کرو کہ اسے انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرو گے۔”
علی اور زبیر نے وعدہ کیا کہ وہ اس خزانے کو قومی ورثے کا حصہ بنائیں گے۔ واپس شہر پہنچ کر، انہوں نے حکومت اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اس دریافت کے بارے میں آگاہ کیا۔
یہ خزانہ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل تھا بلکہ علی اور زبیر کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ ان کی تحقیق ایک عالمی مثال بن گئی، اور اس واقعے کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا گیا۔
علی اور زبیر کے لیے سب کچھ ختم نہیں ہوا تھا۔ جب انہوں نے حکومت کو خزانے کی اطلاع دی، تو اس خبر نے جلد ہی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی۔ کئی بین الاقوامی تنظیمیں اور ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس دریافت پر اپنے دعوے جمانے شروع کر دیے۔ علی کو اندازہ ہوا کہ یہ سفر تو ابھی شروع ہوا تھا، اور انہیں اس خزانے کو محفوظ رکھنے کے لیے بڑی کوشش کرنی ہوگی۔
حکومت نے خزانے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اسے ایک قومی عجائب گھر میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن خزانے کی تاریخی اہمیت اور اس کے ساتھ جڑے راز ابھی بھی علی اور زبیر کے ذہن میں تھے۔
علی اور زبیر کی کامیابی نے نہ صرف میڈیا کی توجہ حاصل کی بلکہ خفیہ تنظیم کو بھی مشتعل کر دیا، جو پہلے ہی اس خزانے کے پیچھے تھی۔ ایک رات، علی کے گھر پر کسی نے دھمکی آمیز پیغام چھوڑا:
“جو کچھ تم نے پایا ہے، وہ ہمارا حق ہے۔ اگر واپس نہ کیا، تو نتائج کے لیے تیار رہو۔”
زبیر نے علی کو مشورہ دیا کہ وہ محتاط رہیں۔ دونوں نے پولیس کو اطلاع دی، لیکن ان کی حفاظت کا ذمہ خود لینا ضروری تھا۔ علی نے اپنے صحافتی رابطوں کا استعمال کرتے ہوئے مزید معلومات اکٹھی کیں۔
خفیہ تنظیم کا ایک جاسوس، جو حکومت کے آثارِ قدیمہ کے محکمے میں کام کر رہا تھا، نے خزانے کے مقام کی تفصیلات چوری کر لیں۔ تنظیم نے فیصلہ کیا کہ وہ عجائب گھر پر حملہ کرکے خزانہ واپس لے جائے گی۔
علی اور زبیر کو اس سازش کی خبر ایک گمنام خط کے ذریعے ملی۔ خط میں لکھا تھا:
“تمہارے خزانے کے دشمن عجائب گھر پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ محتاط رہو۔”
علی نے فوری طور پر حکومت اور عجائب گھر کے حکام سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اضافی سیکیورٹی تعینات کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن علی جانتا تھا کہ صرف سیکیورٹی اہلکار کافی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے زبیر کے ساتھ مل کر عجائب گھر کے نقشے کا جائزہ لیا اور خزانے کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
عجائب گھر کے تہہ خانے میں ایک خفیہ کمرہ تھا، جہاں خزانہ عارضی طور پر رکھا جا سکتا تھا۔ علی نے اپنے چند قریبی صحافی دوستوں کو اس معاملے پر خاموش رہنے کی درخواست کی تاکہ تنظیم کے منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔
ایک رات، جب عجائب گھر کے دروازے بند تھے، تنظیم نے اپنی کارروائی شروع کی۔ وہ جدید ہتھیاروں اور آلات کے ساتھ داخل ہوئے، مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ علی، زبیر، اور پولیس پہلے ہی تیار تھے۔
جب تنظیم کے افراد نے خزانے تک پہنچنے کی کوشش کی، تو علی اور زبیر نے تہہ خانے کے خفیہ کمرے میں ان کا راستہ روک لیا۔ زبیر نے اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تہہ خانے کے دروازے کو بند کر دیا، اور پولیس نے تنظیم کے افراد کو گرفتار کر لیا۔
یہ کامیابی نہ صرف علی اور زبیر کے لیے ایک بڑی جیت تھی بلکہ ملک کے لیے بھی۔ خزانے کی حفاظت نے انہیں عالمی سطح پر شہرت دلائی۔ عجائب گھر میں خزانے کی نمائش کے دوران، دنیا بھر سے سیاح اور محققین آنے لگے۔
زبیر نے کہا، “یہ صرف خزانہ نہیں، بلکہ ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے، اور ہمیں اس پر فخر ہے۔”
علی اور زبیر کی تحقیق نے انہیں ایک اور خفیہ اشارہ دیا، جو انہیں ایک نئے سفر پر لے جانے والا تھا۔ زبیر نے علی سے کہا، “یہ خزانہ تو صرف ایک آغاز تھا۔ ہمارے پاس جو دستاویزات ہیں، وہ ایک اور پراسرار مہم کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔”
علی نے مسکرا کر جواب دیا، “پھر تیار ہو جاؤ، زبیر! ہماری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔”
علی اور زبیر کو خفیہ دستاویزات سے ایک اور معمہ ملا، جس پر تحریر تھا:
“جہاں روشنی زمین سے ملتی ہے، وہاں چھپی ہے ماضی کی گواہی۔”
زبیر نے کہا، “یہ جملہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایسے مقام کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں روشنی اور زمین کا میل ہو۔ ممکنہ طور پر یہ کسی تاریخی مقام یا کسی پہاڑی علاقے کی بات ہو رہی ہے۔”
دونوں نے تحقیق شروع کی۔ دستاویز میں ایک نقشہ بھی موجود تھا، جو بلوچستان کے ایک ویران علاقے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ یہ جگہ “ہنگول نیشنل پارک” کے قریب معلوم ہوئی، جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے لیے مشہور ہے۔
علی اور زبیر نے ایک ٹیم کے ساتھ ہنگول نیشنل پارک کا رخ کیا۔ یہ سفر آسان نہیں تھا۔ راستے دشوار گزار تھے اور علاقے کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات موجود نہیں تھیں۔ راستے میں انہیں مقامی لوگوں سے مدد لینی پڑی۔
جب وہ نقشے میں دکھائے گئے مقام پر پہنچے تو انہیں ایک قدیم غار دکھائی دی، جو کسی زمانے میں کسی قبیلے کی عبادت گاہ رہی ہوگی۔ غار کے دروازے پر ایک اور پراسرار نشان کندہ تھا، جو زبیر نے پہچان لیا۔
غار کے اندر داخل ہونے پر انہیں دیواروں پر کندہ مختلف علامتیں اور تصاویر ملیں۔ ان تصاویر میں انسانی اور حیوانی اشکال تھیں، جو قدیم تہذیبوں کی کہانی بیان کر رہی تھیں۔ علی نے کہا، “یہ جگہ تاریخ کے خزانے سے کم نہیں۔”
دیواروں پر ایک خاص تصویر نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ یہ ایک شخص کی شبیہہ تھی، جس کے ہاتھ میں ایک چابی تھی، اور نیچے تحریر تھی:
“چابی وہی پاس کرے گا، جو روشنی کے ذریعے اندھیرے کو سمجھے گا۔”
غار کے اندر انہیں ایک چھوٹا سا چیمبر ملا، جس کے بیچ میں ایک پتھر کا ستون کھڑا تھا۔ ستون کے اوپر سوراخ تھا، جہاں سورج کی روشنی پڑ رہی تھی۔ زبیر نے غور کیا اور کہا، “یہ سوراخ کسی مخصوص وقت پر روشنی کو ایک خاص زاویے سے نیچے کے نشان پر ڈالے گا، اور تب ہی معمہ حل ہوگا۔”
انہوں نے دن کے مختلف اوقات میں روشنی کا مشاہدہ کیا۔ دوپہر کے وقت، جب سورج عین سر پر تھا، روشنی ستون کے سوراخ سے گزرتے ہوئے فرش پر پڑی اور ایک خاص جگہ کو نمایاں کر دیا۔
جیسے ہی علی نے روشنی کے نیچے زمین پر نشان کی کھدائی کی، ایک خفیہ دروازہ ظاہر ہوا۔ دروازہ بھاری تھا، مگر ٹیم نے محنت کرکے اسے کھولا۔ اندر ایک تہہ خانے کی مانند راستہ تھا، جو مزید گہرائی میں جا رہا تھا۔
تہہ خانے کے اختتام پر ایک بڑا کمرہ تھا، جس میں ایک صندوق موجود تھا۔ صندوق کے اطراف دیواروں پر کندہ تصاویر اور تحریریں قدیم تہذیب کی عظمت کو بیان کر رہی تھیں۔ صندوق کھولنے پر انہیں ایک اور نایاب خزانہ ملا، جس میں نہ صرف سونے کے سکے اور زیورات تھے، بلکہ قدیم تہذیب کی تحریریں بھی شامل تھیں، جو ان کی تاریخ کا اہم راز افشا کر سکتی تھیں۔
علی اور زبیر ابھی اس کامیابی کا جشن منا ہی رہے تھے کہ خفیہ تنظیم کے افراد وہاں پہنچ گئے۔ وہ کسی طرح علی کی تحقیق کی خبر پا چکے تھے اور اس خزانے پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔
ایک سنسنی خیز جھڑپ کے بعد، علی کی ٹیم نے تنظیم کے افراد کو زیر کیا۔ زبیر کی حکمت عملی اور علی کی جرات نے انہیں کامیاب بنایا۔ آخرکار، وہ اس خزانے کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب رہے۔
یہ دریافت ایک بین الاقوامی سطح کی کامیابی بن گئی۔ حکومت نے ان دونوں کی کوششوں کو سراہا، اور خزانے کو قومی عجائب گھر میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ زبیر نے کہا، “یہ صرف خزانے کی کہانی نہیں، بلکہ ہماری تاریخ کے کھوئے ہوئے صفحات ہیں، جنہیں دنیا کے سامنے لانا ضروری تھا۔”
علی اور زبیر کی یہ کامیابی ان کی آخری نہیں تھی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ ابھی بہت سے راز ان دستاویزات میں چھپے ہیں، جو انہیں نئی مہمات کی طرف لے جائیں گے۔ علی نے مسکرا کر کہا، “زبیر، یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ہر خزانہ ہمیں ایک نئی دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔”
علی اور زبیر اپنی حالیہ کامیابی کے بعد معمول کی زندگی کی طرف لوٹ رہے تھے، مگر دل میں ایک بےچینی تھی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ ان کے پاس جو باقی ماندہ دستاویزات تھیں، وہ مزید خفیہ رازوں اور پراسرار مہمات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
زبیر نے ان دستاویزات کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور ایک نئے معمہ کا انکشاف کیا۔ ایک تحریر میں لکھا تھا:
“جہاں زمین کے دل سے گرم سانسیں نکلتی ہیں، وہاں رازوں کا اگلا باب لکھا گیا ہے۔”
زبیر نے علی کو یہ بات بتائی۔ علی نے فوراً کہا، “یہ شاید کسی آتش فشاں یا گرم چشمے کا حوالہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس سراغ کے پیچھے جانا ہوگا۔”
مزید تحقیق کے بعد، انہیں معلوم ہوا کہ یہ اشارہ بلوچستان کے علاقے خضدار کے قریب واقع گرم چشموں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ جگہ اپنی قدرتی عجائبات اور معدنیاتی اہمیت کے لیے مشہور ہے، مگر عام سیاحوں کے لیے غیرمعروف ہے۔
علی اور زبیر نے ایک بار پھر اپنی ٹیم تیار کی اور اس پراسرار مقام کی جانب روانہ ہو گئے۔
یہ سفر آسان نہیں تھا۔ راستے میں انہیں شدید موسم اور خطرناک پہاڑی راستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی گائیڈ نے انہیں بتایا کہ یہ جگہ کسی زمانے میں قدیم تہذیب کا مرکز ہوا کرتی تھی، مگر وقت کے ساتھ یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی۔
چشموں کے قریب پہنچ کر، انہوں نے دیکھا کہ ایک قدیم پتھر کا مجسمہ وہاں موجود تھا۔ اس مجسمے کے نیچے ایک تختی تھی، جس پر وہی پراسرار نشان کندہ تھا جو علی نے سب سے پہلے کیفے کی دیوار پر دیکھا تھا۔
زبیر نے تختی کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ کسی خفیہ راستے کا دروازہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مقامی ماہرین کے ساتھ مل کر مجسمے کو حرکت دی، اور نیچے ایک تنگ راستہ نمودار ہوا۔
یہ راستہ نہایت تاریک اور پراسرار تھا۔ علی نے کہا، “یہ جگہ کسی قدیم تہذیب کے آثار چھپائے ہوئے ہے۔ ہمیں بہت احتیاط سے آگے بڑھنا ہوگا۔”
راستے کے اختتام پر ایک بڑا کمرہ تھا، جس کی دیواریں قدیم تحریروں اور نقش و نگار سے مزین تھیں۔ ان دیواروں پر ایک نقشہ بنا ہوا تھا، جو کسی اور جگہ کی نشاندہی کر رہا تھا۔
اس نقشے میں ایک جملہ درج تھا:
“یہاں صرف وہی پہنچ سکتا ہے، جس کا دل سچائی کے لیے دھڑکتا ہو۔”
زبیر نے نقشے کا عکس لیا، اور علی نے مزید نشانات تلاش کرنے کی کوشش کی۔
جب علی اور زبیر اس کمرے سے باہر نکلنے کی تیاری کر رہے تھے، تو انہیں پتہ چلا کہ خفیہ تنظیم کے افراد نے ایک بار پھر ان کا پیچھا کیا ہے۔ تنظیم کے افراد نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی، مگر علی اور زبیر نے زیر زمین راستے سے بچ کر نکلنے کا منصوبہ بنایا۔
ایک جھڑپ کے دوران، علی کے ہاتھ میں ایک قدیم سکے کا تھیلا آیا، جس پر وہی نشان موجود تھا۔ یہ سکے ان کے اگلے معمہ کی کنجی بن سکتے تھے۔
علی اور زبیر نے محفوظ مقام پر پہنچ کر نقشے اور سکوں کا مطالعہ کیا۔ انہیں احساس ہوا کہ یہ نقشہ سندھ کے ایک تاریخی مقام “موئن جو دڑو” کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
زبیر نے کہا، “یہ تہذیب تو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ اگر یہ نقشہ موئن جو دڑو کی طرف اشارہ کر رہا ہے، تو شاید وہاں کوئی اہم راز چھپا ہوا ہو۔”
علی نے پرجوش ہو کر جواب دیا، “ہمیں فوراً وہاں جانا ہوگا۔ یہ ہماری سب سے بڑی دریافت ہو سکتی ہے!”
علی اور زبیر کے لیے موئن جو دڑو کی دریافت ایک خواب جیسی تھی۔ انہوں نے اپنے وسائل اکٹھے کیے اور سندھ کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر ایک نئی مہم کی شروعات تھی، کیونکہ موئن جو دڑو نہ صرف ایک قدیم تاریخی مقام تھا بلکہ وہاں کے آثار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے راز بھی چھپائے ہوئے تھے۔
سندھ پہنچ کر، علی اور زبیر نے محکمہ آثار قدیمہ سے رابطہ کیا اور اپنے پاس موجود نقشے اور سکوں کے بارے میں بتایا۔ محکمہ کے ایک سینئر ماہر، ڈاکٹر حارث، ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر حارث نے کہا، “یہ نشان موئن جو دڑو کی تہذیب میں عام نہیں ہے، مگر اس کے آثار کسی خفیہ راستے یا تہہ خانے کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔”
علی اور زبیر نے ڈاکٹر حارث کے ساتھ مل کر موئن جو دڑو کے ایک خاص حصے کا جائزہ لیا، جو نقشے میں دکھائی گئی جگہ سے مطابقت رکھتا تھا۔ کھدائی شروع کی گئی، اور جلد ہی انہیں ایک پتھر کا دروازہ ملا، جس پر وہی پراسرار نشان کندہ تھا۔
دروازے کو کھولنے کے لیے ایک خاص تکنیک کی ضرورت تھی۔ زبیر نے سکے کا استعمال کیا اور پتھر کے دروازے کو کھولا۔ دروازے کے پیچھے ایک زیر زمین راستہ تھا، جو مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ علی نے ٹارچ نکالی اور سب سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
زیر زمین راستہ طویل اور گھوماؤ دار تھا۔ راستے کے اختتام پر ایک بڑا کمرہ ملا، جو مکمل طور پر بند تھا۔ کمرے کے اندر قدیم کتب، برتن، اور دیگر آثار موجود تھے۔ سب سے دلچسپ چیز ایک تختی تھی، جس پر ایک لمبی عبارت کندہ تھی۔
ڈاکٹر حارث نے عبارت کو پڑھا اور کہا، “یہ تختی ایک ایسی قدیم زبان میں لکھی گئی ہے، جو آج تک مکمل طور پر نہیں سمجھی جا سکی۔ مگر اس کا مطلب کچھ ایسا ہے کہ یہاں کسی بہت اہم خزانے کو چھپایا گیا ہے، جو انسانیت کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔”
جب علی اور زبیر اپنے مشاہدات کو ریکارڈ کر رہے تھے، تو اچانک خفیہ تنظیم کے افراد نے وہاں حملہ کر دیا۔ تنظیم کے سربراہ نے کہا، “یہ خزانہ ہماری ملکیت ہے۔ تمہیں یہاں سے زندہ واپس جانے نہیں دیا جائے گا!”
علی اور زبیر نے فوری طور پر دفاعی حکمت عملی بنائی۔ زبیر نے ایک خفیہ راستہ دریافت کیا، جو شاید فرار کا واحد راستہ تھا۔ علی نے ڈاکٹر حارث کو ساتھ لیا اور کمرے سے نکلنے کی کوشش کی۔
فرار کے دوران، زبیر نے غار کے ایک حصے کو گرانے کا منصوبہ بنایا تاکہ تنظیم کے افراد ان کا پیچھا نہ کر سکیں۔ انہوں نے پتھروں کو حرکت دی، اور غار کا داخلی راستہ بند ہو گیا۔ علی نے کہا، “یہ بہت خطرناک تھا، مگر ہمیں کوئی اور راستہ نہیں ملا۔”
علی اور زبیر تختی کو لے کر محفوظ مقام پر واپس آئے۔ ڈاکٹر حارث نے تختی پر مزید تحقیق کی اور کہا، “یہ تحریر کسی اور مقام کی طرف اشارہ کر رہی ہے، جو شاید اس تہذیب کے اصل مرکز کو ظاہر کرتا ہے۔”
زبیر نے کہا، “کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تہذیب اپنی اصل شکل میں کسی ایسی جگہ چھپی ہو، جہاں آج تک کوئی نہ پہنچا ہو؟”
ڈاکٹر حارث نے مسکرا کر کہا، “یہ ممکن ہے۔ اور یہی ہماری اگلی مہم ہوگی۔”
علی اور زبیر نے محسوس کیا کہ ان کے سامنے ایک نیا راز کھل چکا ہے۔ تختی کے اشارے ان کی مہم کو مزید دلچسپ اور پیچیدہ بنانے والے تھے۔ علی نے کہا، “ہم نے ایک بار پھر تاریخ کو زندہ کر دیا ہے۔ اب وقت ہے کہ دنیا کو اس کے بارے میں بتائیں۔”
زبیر نے جواب دیا، “مگر اس سے پہلے ہمیں یہ راز مکمل طور پر سمجھنا ہوگا۔ تیار رہو، علی! اگلی مہم اور بھی بڑی ہوگی۔”
علی، زبیر، اور ڈاکٹر حارث نے تختی کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ کئی دنوں کی تحقیق اور تجزیے کے بعد، انہیں تختی کے متن میں ایک نیا اشارہ ملا:
“جہاں دریاؤں کا میل ہو، وہاں وقت کا راز چھپا ہے۔”
یہ عبارت انڈس تہذیب کے کسی ایسے مقام کی نشاندہی کرتی تھی جہاں دو یا زیادہ دریاؤں کا سنگم ہو۔ زبیر نے فوراً علاقے کے نقشے کا جائزہ لیا اور کہا، “یہ مقام دریائے سندھ اور دریائے پنجند کے سنگم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پنجند کا علاقہ شاید ہماری اگلی منزل ہے۔”
پنجند کا سفر ایک نیا امتحان تھا۔ یہ علاقہ اپنی زرخیزی اور قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، مگر وہاں کے مخصوص مقامات تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ علی اور زبیر نے جدید ٹیکنالوجی اور مقامی رہنماؤں کی مدد سے اپنی مہم کی تیاری مکمل کی۔
راستے میں، علی نے کہا، “زبیر، ہمیں ہر قدم پر محتاط رہنا ہوگا۔ وہ تنظیم دوبارہ حملہ کر سکتی ہے۔”
زبیر نے جواب دیا، “ہماری تیاری مکمل ہے۔ اگر وہ دوبارہ آئے تو انہیں شکست دیں گے۔”
پنجند پہنچ کر، انہوں نے ایک پراسرار جزیرے کی نشاندہی کی، جو دونوں دریاؤں کے بیچ میں واقع تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ جزیرہ صدیوں سے غیر آباد ہے اور وہاں جانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔
علی نے کہا، “یہی وہ جگہ ہو سکتی ہے، جہاں تختی نے ہمیں پہنچنے کا کہا تھا۔”
جزیرے پر پہنچنے کے لیے کشتی کا استعمال کیا گیا۔ جیسے ہی وہ جزیرے پر پہنچے، انہیں ایک پراسرار ستون ملا، جس پر تختی کے نشان کی طرح کی علامت کندہ تھی۔
اس ستون کے نیچے ایک خفیہ دروازہ تھا، جو صدیوں سے بند معلوم ہو رہا تھا۔ زبیر نے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی، مگر یہ آسان نہیں تھا۔ انہوں نے پتھر کے ایک پیچیدہ نظام کو حرکت دی، اور دروازہ کھل گیا۔
دروازے کے اندر ایک وسیع زیر زمین سرنگ ملی، جس کی دیواروں پر قدیم نقش و نگار تھے۔ ان نقش و نگار نے انڈس تہذیب کے ایک ایسے پہلو کو ظاہر کیا، جو آج تک کسی کو معلوم نہیں تھا۔
سرنگ کے اختتام پر انہیں ایک بہت بڑا کمرہ ملا، جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ یہ کمرہ کسی عظیم الشان عبادت گاہ کی مانند تھا، جس کے بیچ میں ایک تخت رکھا تھا۔ تخت کے اطراف قدیم مورتیاں اور اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر حارث نے کہا، “یہ جگہ انڈس تہذیب کے کسی خفیہ مرکز کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ تہذیب اپنی اصل میں یہاں محفوظ رہی ہو۔”
علی نے کہا، “یہ دنیا کے لیے ایک بہت بڑی دریافت ہے، مگر ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔”
جب وہ اس قدیم مقام کی تصاویر اور اشیاء کو ریکارڈ کر رہے تھے، خفیہ تنظیم کے افراد نے جزیرے پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ نہایت اچانک تھا اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے دفاعی حکمت عملی اپنانی پڑی۔
زبیر نے کہا، “ہمیں اس جگہ کو ان کے قبضے میں جانے سے بچانا ہوگا۔ یہ صرف ہمارا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا خزانہ ہے۔”
علی اور زبیر نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر تنظیم کا سامنا کیا۔ ایک سخت جھڑپ کے بعد، انہوں نے تنظیم کے افراد کو شکست دی اور انہیں گرفتار کروا دیا۔
اس مہم کے بعد، علی اور زبیر نے دریافت شدہ اشیاء اور معلومات کو حکومت کے حوالے کیا۔ ان کی یہ دریافت دنیا بھر میں مشہور ہوئی، اور انڈس تہذیب کی تاریخ میں ایک نیا باب شامل ہوا۔
ڈاکٹر حارث نے کہا، “یہ صرف ایک آغاز ہے۔ اس دریافت نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ تاریخ کے بہت سے راز ابھی بھی زمین کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔”