(Urdu Novel) خوابوں کی تلاش
تحریر: محمد شعیب اکرم
اندھیری رات تھی، ہوا کے جھونکے درختوں کی شاخوں کو جھنجھوڑ رہے تھے، اور گاؤں کے ایک کونے میں واقع ایک چھوٹے سے مکان میں ایک نوجوان لڑکی، مریم، خواب دیکھ رہی تھی۔ مریم کا دل ہمیشہ اونچی پرواز کا خواہشمند رہتا تھا، مگر اس کے ارد گرد کی دنیا نے اسے زمین سے باندھ رکھا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کی واحد لڑکی تھی جو شہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کا خواب رکھتی تھی۔
مریم کا خاندان گاؤں کے رسم و رواج کا پابند تھا۔ اس کے والد، حاجی صاحب، سخت مزاج اور اصول پسند انسان تھے، جبکہ اس کی ماں، بی بی زہرہ، ایک محبت کرنے والی مگر خاموش طبع عورت تھیں۔ مریم کا بھائی، قاسم، اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہا تھا اور گاؤں کی زمینوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
ایک دن، مریم کو اپنے اسکول سے ایک خط ملا۔ یہ خط شہر کے ایک بڑے کالج سے آیا تھا، جہاں مریم نے اسکالرشپ کے لیے درخواست دی تھی۔ خط پڑھتے ہی مریم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ “میں منتخب ہو گئی ہوں!” وہ چیخ اٹھی۔
لیکن جب اس نے یہ بات اپنے والد کو بتائی تو وہ سخت ناراض ہو گئے۔ “شہر جانا؟ یہ کیا بات ہوئی؟ لڑکیاں گاؤں میں ہی اچھی لگتی ہیں!” حاجی صاحب نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔ مریم کے دل کو شدید دھچکا لگا، لیکن اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔
رات کو، جب سب سو رہے تھے، مریم نے اپنی ماں سے بات کی۔ “امی، یہ میرا خواب ہے۔ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔ مجھے ایک موقع دیجیے۔” زہرہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن انہوں نے مریم کا ہاتھ تھام لیا۔ “بیٹی، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم حاجی صاحب کو منانے کی کوشش کریں گے۔”
اگلے دن، مریم نے ہمت کر کے دوبارہ اپنے والد سے بات کی۔ اس بار اس نے اپنی دل کی گہرائیوں سے ان سے درخواست کی۔ “ابا، میں یہ سب کچھ اپنی اور آپ کی عزت کے لیے کر رہی ہوں۔ اگر میں کامیاب ہوئی، تو ہمارے گاؤں کا نام روشن ہوگا۔”
یہ الفاظ حاجی صاحب کے دل پر اثر کر گئے، لیکن انہوں نے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہ کیا۔ گاؤں کے بزرگوں سے مشورہ لینے کے بعد، حاجی صاحب نے مشروط اجازت دی: “اگر تم وعدہ کرو کہ کبھی اپنے خاندان کی عزت پر آنچ نہیں آنے دو گی، تو ہم تمہیں جانے دیں گے۔”
شہر میں زندگی مریم کے لیے بالکل نئی تھی۔ بلند و بالا عمارتیں، ہجوم سے بھرے بازار، اور تیز رفتار زندگی نے اسے حیران کر دیا۔ لیکن ان سب کے باوجود، اس نے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھی۔
کالج میں، مریم نے اپنی محنت اور ذہانت سے سب کا دل جیت لیا۔ وہ نہ صرف اپنی کلاس کی نمایاں طالبہ بنی، بلکہ ایک بڑی تقریری مقابلے میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی۔
مریم نے شہر میں رہ کر نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ اس کے اندر ایک نیا خواب جنم لینے لگا۔ وہ چاہتی تھی کہ گاؤں کی دوسری لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد، مریم گاؤں واپس آئی۔ گاؤں والوں نے اس کا استقبال کیا، لیکن کچھ لوگ اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ مریم نے ان کے سامنے اپنی کامیابیوں کی داستان سنائی اور اپنی خدمات پیش کیں۔
آج، مریم کا گاؤں ایک نئی پہچان رکھتا ہے۔ وہاں کی لڑکیاں اسکول جاتی ہیں، تعلیم حاصل کرتی ہیں، اور اپنے خواب پورے کرنے کے لیے محنت کرتی ہیں۔ مریم نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر ہمت ہو، تو خوابوں کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔