(Khamosh Chekhen horror story)”خاموش چیخیں”
مصنف: (محمد شعیب اکرم)
رات کی تاریکی میں خاموشی کا راج تھا۔ شہر کی سڑکیں سنسان اور بے رونق تھیں۔ عائشہ، جو ایک معروف صحافی تھی، اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھی، رات کے اخبار کے لیے ایک اہم رپورٹ تیار کر رہی تھی۔ اچانک، اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ رات کے اس پہر عموماً کوئی اسے فون نہیں کرتا تھا۔
“ہیلو؟” عائشہ نے فون اٹھا کر کہا۔
دوسری طرف سے ایک عجیب سی سرگوشی سنائی دی، “تمہیں ایک ایسی کہانی چاہیے جسے تم کبھی بھول نہ سکو؟ اگر ہمت ہے، تو کل رات گیارہ بجے پرانی لائبریری آؤ۔”
عائشہ نے فوراً فون پر جواب دینے کی کوشش کی، لیکن فون بند ہو چکا تھا۔ وہ حیران ہو گئی، کیونکہ وہ لائبریری جس کا ذکر کیا گیا تھا، شہر کی سب سے پرانی اور ویران لائبریری تھی، جس کے بارے میں لوگ عجیب و غریب کہانیاں سناتے تھے۔ کوئی وہاں جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا، اور اب اس پراسرار فون کال نے عائشہ کی تجسس کو مزید بڑھا دیا۔
اگلی رات، عائشہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور لائبریری جائے گی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن اس کا پیشہ اسے ہمیشہ خطروں کا سامنا کرنے پر اکساتا تھا۔ گیارہ بجتے ہی، عائشہ نے اپنی کار نکالی اور شہر کی ویران گلیوں سے گزرتی ہوئی پرانی لائبریری کے قریب پہنچی۔
لائبریری کی عمارت بہت بڑی اور پرانی تھی۔ اس کی دیواروں پر خزاں کے پتے چمٹے ہوئے تھے، اور دروازے پر زنگ آلود تالا لگا ہوا تھا۔ عائشہ نے گھڑی دیکھی، بالکل گیارہ بج رہے تھے۔ جیسے ہی وہ دروازے کے قریب گئی، دروازہ خود بخود کھل گیا۔
“کون ہے؟” عائشہ نے بلند آواز میں پوچھا، لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ وہ دروازے کے اندر داخل ہوئی۔ اندر داخل ہوتے ہی، اس کے جسم میں ایک سردی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف دھول جمی ہوئی تھی، اور شیلفوں پر پرانی کتابیں تھیں، جن پر مکڑیوں کے جالے تھے۔
اچانک، ایک کتاب شیلف سے گر گئی۔ عائشہ نے چونک کر اس کتاب کو اٹھایا اور دیکھا کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں تھی۔ اس کا سرورق بہت پرانا اور سیاہ تھا، اور اس پر لکھا تھا: “خاموش چیخیں۔” عائشہ نے کتاب کھولی، اور جیسے ہی اس نے پہلا صفحہ پڑھنا شروع کیا، اسے ایسا لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔
عائشہ نے جلدی سے کتاب کے صفحے پلٹے اور ایک عجیب سی کہانی سامنے آئی۔ کتاب میں ان لوگوں کے بارے میں لکھا تھا جو لائبریری میں آئے اور کبھی واپس نہیں گئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے نام، تصاویر، اور واقعات درج تھے، اور ان سب میں ایک بات مشترک تھی: وہ لوگ پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے تھے۔
“یہ کیا ہے؟” عائشہ نے خود سے کہا، لیکن اس کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اچانک، ایک اور آواز آئی۔ وہ پلٹی تو ایک سایہ سا دکھائی دیا جو فوراً غائب ہو گیا۔ عائشہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے، لیکن کیا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں گردش کرنے لگا۔
عائشہ نے کتاب کو اپنی بیگ میں ڈالا اور جلدی سے باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچی، دروازہ بند ہو گیا۔ “یہ کیا ہو رہا ہے؟” عائشہ نے پریشان ہو کر کہا۔ وہ دروازے کو زور زور سے دھکیلنے لگی، لیکن وہ نہ کھلا۔ اب وہ لائبریری کے اندر قید ہو چکی تھی۔
عائشہ نے ہمت نہ ہاری اور لائبریری میں موجود ہر شے کو غور سے دیکھنے لگی۔ ایک گوشے میں ایک قدیم میز پر ایک اور کتاب رکھی ہوئی تھی، جو پچھلی کتاب سے بھی زیادہ پراسرار لگ رہی تھی۔ وہ میز کے قریب گئی اور کتاب کو کھولا۔ اس کتاب میں ایک پرانی تصویر تھی، جس میں ایک خاندان نظر آ رہا تھا۔ لیکن عائشہ کو حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس خاندان کی تصویر کے نیچے لکھا تھا: “یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لائبریری نے ہمیشہ کے لیے قید کر لیا۔”
کتاب میں لکھا تھا کہ یہ لائبریری کسی زمانے میں ایک بدنام جادوگر کی ملکیت تھی جو اپنے دشمنوں کو یہاں قید کرتا تھا۔ لائبریری کی عمارت میں ایک خفیہ تہہ خانہ تھا جہاں ان لوگوں کو رکھا جاتا تھا، اور وہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا تھا۔ لیکن اس کا نام کہیں نہیں تھا، صرف “خاموش چیخیں” کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔
عائشہ کے ذہن میں سوالات جنم لینے لگے: کیا یہ سب سچ ہے؟ کیا یہ صرف ایک کہانی ہے یا واقعی میں لائبریری میں کچھ پراسرار ہو رہا ہے؟ وہ جانتی تھی کہ اسے اس کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔
عائشہ نے کتاب میں دی گئی ہدایات کے مطابق لائبریری کے تہہ خانے کی تلاش شروع کر دی۔ اسے ایک پرانا لکڑی کا دروازہ ملا، جس کے پیچھے سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تجسس اس کے خوف پر غالب آ گیا۔
سیڑھیاں بہت پرانی اور کمزور تھیں، ہر قدم پر ایک آواز پیدا ہوتی تھی جیسے کسی کو خبردار کر رہی ہو۔ تہہ خانے میں پہنچتے ہی، ایک عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ چاروں طرف اندھیرا تھا، لیکن عائشہ نے اپنی ٹارچ جلائی اور آگے بڑھنے لگی۔
اچانک، اس کے سامنے ایک دروازہ آیا جس پر زنگ آلود تالہ لگا ہوا تھا۔ تالے کے اوپر ایک پرانا نشان بنا ہوا تھا، جو کسی پرانے زمانے کے جادوئی نشان سے مشابہت رکھتا تھا۔ عائشہ نے تالے کو کھولنے کی کوشش کی، لیکن تالہ بہت مضبوط تھا۔
پھر، اچانک، اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ مڑی تو وہاں کوئی نہیں تھا، لیکن اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں کوئی نہ کوئی پراسرار چیز ضرور ہے۔
عائشہ نے ہمت کر کے دروازے کے ارد گرد موجود کاغذات اور چیزوں کو دیکھنا شروع کیا۔ اسے ایک چھوٹا سا پرانا چابی ملا جو شاید اسی دروازے کا تھا۔ اس نے تالہ کھولا اور دروازہ دھیرے سے کھولا۔ اندر کا منظر خوفناک تھا۔ تہہ خانے میں بہت ساری پرانی زنجیریں، جالے، اور کچھ انسانی باقیات تھیں۔
یہ منظر دیکھ کر عائشہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اسے سمجھ میں آگیا کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں لوگوں کو قید کیا جاتا تھا اور کبھی واپس نہیں آنے دیا جاتا تھا۔ وہ جلدی سے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن پھر اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔
“کیا تم بھی یہاں قید ہونا چاہتی ہو؟”
عائشہ نے گھبرا کر دیکھا تو ایک عورت کا سایہ نظر آیا۔ وہ عورت کوئی اور نہیں، بلکہ وہی جادوگر کی بیوی تھی، جس کی تصویر اس نے اوپر دیکھی تھی۔ اس عورت کی آنکھوں میں غصہ اور نفرت تھی، جیسے وہ کسی سے بدلہ لینا چاہتی ہو۔
عائشہ نے اپنی پوری طاقت سے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن وہ عورت اس کے پیچھے تھی۔ تہہ خانے کی دیواریں لرزنے لگیں اور عائشہ کے پیروں کے نیچے زمین ہلنے لگی۔ وہ دروازے کی طرف بھاگتی رہی، لیکن ہر طرف سے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔
“تم یہاں سے بچ کر نہیں جا سکتی!” آوازیں گونج رہی تھیں۔
عائشہ نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار تہہ خانے سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی وہ اوپر پہنچی، لائبریری کا دروازہ خود بخود کھل گیا، اور وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ باہر کی ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا تو اسے احساس ہوا کہ وہ بچ گئی ہے۔
عائشہ نے جلدی سے لائبریری سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف دوڑ لگائی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اب بھی تیز تھیں، اور اس کے جسم میں خوف کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھ کر گہری سانس لی، لیکن اس کا ذہن اب بھی لائبریری میں گزرے واقعات کی گرفت میں تھا۔
وہ جانتی تھی کہ جو کچھ بھی لائبریری میں ہوا تھا، وہ کوئی خواب یا خیالی بات نہیں تھی۔ وہ حقیقت تھی، اور وہ حقیقت نہ صرف خوفناک تھی بلکہ غیر معمولی بھی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ لائبریری میں کچھ ایسا چھپا ہوا ہے جس کا تعلق صرف پرانی کہانیوں سے نہیں بلکہ شہر کی ایک پوشیدہ تاریخ سے ہے۔
عائشہ نے جلدی سے اپنی گاڑی کا انجن اسٹارٹ کیا اور اپنے اخبار کے دفتر کی طرف روانہ ہوئی۔ اسے یہ کہانی دنیا کے سامنے لانی تھی، تاکہ لوگ جان سکیں کہ اس لائبریری کے پیچھے چھپی سچائی کیا ہے۔
اگلے دن، جب عائشہ اپنے دفتر پہنچی، تو اس نے فوراً اپنی تحقیقات شروع کیں۔ اس نے لائبریری کے بارے میں ہر ممکنہ دستاویز، اخبار کی پرانی خبریں اور لائبریری کے مالکین کی تفصیلات جمع کیں۔ لیکن جو معلومات اسے ملی، وہ مزید حیران کن تھی۔
لائبریری کا اصل مالک ایک مشہور و معروف آدمی تھا، جس کا نام ڈاکٹر رشید تھا۔ ڈاکٹر رشید نہ صرف ایک تاریخ دان تھا بلکہ اس کا تعلق پراسرار علوم اور جادوگری سے بھی تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک ایسی کتاب کی تلاش میں تھا جس میں جادوئی طاقتیں چھپی ہوئی تھیں، اور وہ لائبریری کو اپنے تجربات کے لیے استعمال کرتا تھا۔
عائشہ نے غور کیا کہ ڈاکٹر رشید کی موت بھی ایک پراسرار حادثے میں ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے لائبریری بند ہو چکی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ ڈاکٹر رشید کی روح ابھی بھی لائبریری میں بھٹک رہی ہے، اور جو کوئی بھی وہاں جاتا ہے، واپس نہیں آتا۔
عائشہ کو اب یقین ہو چکا تھا کہ وہ جس سایے کو تہہ خانے میں دیکھ چکی تھی، وہ ڈاکٹر رشید کی روح تھی، جو اپنے راز کو محفوظ رکھنے کے لیے لائبریری میں رہتی تھی۔
عائشہ کے دل میں خوف کے باوجود، اس کا صحافتی تجسس اسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ لائبریری میں جائے اور اس راز کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس نے اپنی رپورٹ کو مکمل کرنے کے لیے لائبریری کے پراسرار راز کو جاننا ضروری سمجھا۔
رات کا وقت دوبارہ چن لیا گیا۔ عائشہ نے اس بار اپنے ساتھ اپنے دوست اور فوٹوگرافر، حسان کو بھی لے لیا۔ وہ دونوں مل کر لائبریری پہنچے۔ اس بار وہ زیادہ تیار تھے، اور ان کے پاس ضروری سامان اور کیمرے تھے تاکہ وہ ہر لمحے کو دستاویز کر سکیں۔
“تمہیں یقین ہے کہ ہم یہاں دوبارہ آ رہے ہیں؟” حسان نے دبے دبے لہجے میں پوچھا۔
“ہاں، ہمیں یہ راز دنیا کو بتانا ہے۔” عائشہ نے پختہ لہجے میں جواب دیا۔
دونوں نے لائبریری کے اندر قدم رکھا۔ اندر کا منظر اب بھی وہی تھا—پرانے جالے، دھول، اور ایک عجیب سی خاموشی جو ہوا میں لٹکی ہوئی تھی۔
عائشہ اور حسان دوبارہ اسی تہہ خانے کی طرف بڑھے، جہاں عائشہ کو پہلے تالہ بند دروازہ ملا تھا۔ اس بار، عائشہ کے ہاتھ میں وہی چابی تھی جو اس نے پچھلی بار تہہ خانے سے لی تھی۔
“یہ دروازہ وہی ہے۔” عائشہ نے آہستہ سے کہا اور چابی کو تالے میں ڈال کر کھولا۔
دروازہ کھلتے ہی، ایک اور پراسرار راہداری ظاہر ہوئی۔ اس راہداری کے آخر میں ایک اور کمرہ تھا، جس کے دروازے پر ایک پرانا، دھندلا ہوا نشان تھا۔ وہ دونوں آہستہ سے آگے بڑھے اور دروازہ کھولا۔
کمرے کے اندر کا منظر حیرت انگیز تھا۔ یہ کمرہ تہہ خانے کی دیگر جگہوں سے مختلف تھا۔ یہاں ایک بڑی میز تھی جس پر ایک قدیم کتاب رکھی ہوئی تھی، اور کتاب کے ارد گرد مختلف اوزار اور جادوئی علامات بنی ہوئی تھیں۔
“یہ وہ کتاب ہو سکتی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر رشید کی کہانیوں میں تھا۔” عائشہ نے کتاب کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“لیکن کیا یہ خطرناک نہیں ہو سکتی؟” حسان نے تشویش کے ساتھ پوچھا۔
عائشہ نے ہلکے ہاتھ سے کتاب کو اٹھایا اور اس کا پہلا صفحہ کھولا۔ کتاب میں مختلف علامات اور جادوئی اشعار لکھے ہوئے تھے۔ ہر صفحہ ایک نئی کہانی سناتا تھا، اور ہر کہانی میں ایک نیا راز چھپا ہوا تھا۔
جیسے ہی عائشہ نے کتاب کے مزید صفحات پلٹے، اچانک کمرے کی فضا بدل گئی۔ ہوا بھاری ہو گئی، اور دیواروں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں—جیسے کوئی چیخ رہا ہو، مگر اس کی آواز دنیا میں سنائی نہ دیتی ہو۔
“یہ کیا ہو رہا ہے؟” حسان نے گھبرا کر پوچھا۔
عائشہ نے جلدی سے کتاب بند کی، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ کمرے کے دروازے خود بخود بند ہو گئے، اور ایک پراسرار سایہ پھر سے ظاہر ہوا۔ یہ سایہ وہی تھا جو عائشہ نے پہلے تہہ خانے میں دیکھا تھا۔
“تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟” سایے کی آواز گونجی۔
عائشہ اور حسان نے خوف سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، لیکن وہ کمرے کے اندر قید ہو چکے تھے۔ وہ سایہ آہستہ آہستہ ان کے قریب آ رہا تھا، اور ہر قدم کے ساتھ اس کی شکل واضح ہوتی جا رہی تھی۔
“تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔” وہ سایہ بولا۔
عائشہ نے جلدی سے سوچا کہ وہ کیسے یہاں سے بچ سکتے ہیں۔ اس نے یاد کیا کہ کتاب میں جادوئی اشعار تھے جنہیں پڑھ کر شاید وہ سایے کو روک سکیں۔ وہ جلدی سے کتاب کے آخری صفحات پلٹنے لگی اور ایک خاص دعا پڑھنے لگی۔
“یہ کیا کر رہی ہو؟” سایے نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
لیکن عائشہ نے ہار نہیں مانی اور دعائیں پڑھتی رہی۔ جیسے جیسے وہ دعا پڑھتی جا رہی تھی، سایے کی طاقت کمزور ہوتی جا رہی تھی، اور آخر کار، وہ سایہ دھیرے دھیرے غائب ہو گیا۔
دروازے کھل گئے، اور ہوا دوبارہ معمول پر آ گئی۔
عائشہ اور حسان جلدی سے لائبریری سے باہر نکل آئے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سانس لی۔
“یہ کوئی عام کہانی نہیں ہے۔” عائشہ نے کہا۔ “یہ سچ ہے، اور ہمیں اس سچائی کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔”
حسان نے اثبات میں سر ہلایا۔
اگلے دن، عائشہ نے اپنی رپورٹ کو مکمل کیا اور لائبریری کے پراسرار راز کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ شہر بھر میں اس کہانی کی دھوم مچ گئی، اور لوگ لائبریری کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب ہو گئے۔
لیکن عائشہ جانتی تھی کہ یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کیونکہ خاموش چیخیں اب بھی کہیں نہ کہیں سنائی دے رہی تھیں، اور شاید وہ کسی دن دوبارہ ظاہر ہوں۔
ختم شد