کشتی اور سمندر
رات گہری ہو چکی تھی۔ سمندر کی موجیں خاموشی سے گنگنا رہی تھیں، لیکن ان کے اندر چھپے طوفان کی ہلکی سی جھلک محسوس ہو رہی تھی۔ ایک پرانی لکڑی کی کشتی سمندر کے وسط میں ہچکولے کھا رہی تھی، جیسے کوئی چھوٹا کھلونا بڑے پانی کے کھیل کا شکار ہو۔
کشتی میں تین افراد تھے: حسن، زبیر، اور عارف۔ تینوں دوست تھے، مگر آج ان کے چہرے پر خوف کے سائے تھے۔ انہوں نے تین دن پہلے ایک مہم جوئی کا فیصلہ کیا تھا، اور یہ فیصلہ ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔
تین دن پہلے، حسن نے اپنے دوستوں کو ایک پرانی کتاب دکھائی تھی۔ کتاب کے مطابق، ایک خزانہ سمندر کے وسط میں کسی پرانی غرق شدہ کشتی میں چھپا ہوا تھا۔ حسن کا ماننا تھا کہ وہ اس خزانے کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ زبیر نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد رضامندی ظاہر کی، مگر عارف کو شک تھا کہ یہ سب ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں۔
“عارف، زندگی میں خطرے نہ اٹھائے جائیں تو کہانی کہاں بنتی ہے؟” حسن نے کہا تھا۔
“لیکن خطرہ لینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے،” عارف نے جواب دیا تھا۔
سمندر میں سفر کے پہلے دن سب کچھ ٹھیک تھا۔ موجیں ہموار تھیں، اور ہوا میں تازگی تھی۔ لیکن دوسرے دن جب وہ کتاب میں درج جگہ کے قریب پہنچے، تو موسم اچانک بدل گیا۔ بادل گہرے ہونے لگے، اور ہوا خوفناک آوازیں نکالنے لگی۔
اچانک کشتی کے نیچے سے ایک عجیب آواز آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے کشتی کے نیچے سے زور سے مارا ہو۔ زبیر نے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر اندھیرے کے سوا کچھ نہ نظر آیا۔
“یہ کیا تھا؟” عارف نے گھبرا کر پوچھا۔
“شاید کوئی مچھلی ہو،” حسن نے لاپرواہی سے کہا، لیکن اس کی آواز میں چھپی پریشانی واضح تھی۔
تیسرے دن وہ آخرکار اس جگہ پہنچے جہاں کتاب کے مطابق خزانہ ہونا تھا۔ حسن نے نقشہ نکالا اور ان کا راستہ دکھایا۔ وہ جگہ سمندر کے درمیان ایک گہرے گڑھے میں تھی۔ کشتی رک گئی، اور حسن نے غوطہ لگانے کی تیاری شروع کی۔
“کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ محفوظ ہے؟” عارف نے کہا۔
“ہمیں یہ کرنے کی ضرورت ہے،” حسن نے جواب دیا۔
حسن نے پانی میں غوطہ لگایا۔ نیچے اندھیرا تھا، لیکن اس کے دل میں جوش تھا۔ چند لمحوں کے بعد وہ ایک پرانی غرق شدہ کشتی کے قریب پہنچ گیا۔ کشتی کے اندر ایک صندوق تھا، جس پر عجیب و غریب نقوش کندہ تھے۔
حسن نے صندوق کھولا تو اندر سے روشنی پھوٹنے لگی۔ مگر روشنی کے ساتھ ہی، پانی میں عجیب ہلچل شروع ہوگئی۔ ایسا لگا جیسے سمندر کا پانی زندہ ہوگیا ہو۔ حسن نے جلدی سے صندوق بند کیا اور کشتی کی طرف واپس تیرنا شروع کیا۔
جب وہ واپس پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ عارف اور زبیر کشتی کے کونے میں کھڑے کانپ رہے تھے۔
“کیا ہوا؟” حسن نے پوچھا۔
“ہم نے کچھ سنا، جیسے کوئی ہمارے آس پاس ہو،” زبیر نے کہا۔
رات کے وقت کشتی میں عجیب و غریب واقعات شروع ہو گئے۔ کشتی ہچکولے کھانے لگی، اور پانی سے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان کے قریب آ رہا ہو۔
“یہ سب اس صندوق کی وجہ سے ہے!” عارف نے چیخ کر کہا۔
“ہمیں اسے سمندر میں واپس پھینکنا ہوگا،” زبیر نے کہا۔
حسن نے انکار کیا۔ “ہم نے اتنی محنت کی ہے۔ یہ خزانہ ہمارا ہے!”
لیکن اس کے الفاظ کے ساتھ ہی، پانی میں سے ایک بڑا سایہ نمودار ہوا۔ وہ کسی جانور کی طرح نظر آتا تھا، مگر اس کی آنکھیں انسانوں جیسی تھیں۔ وہ کشتی کے قریب آیا، اور اچانک کشتی ہلنے لگی۔
عارف نے صندوق اٹھایا اور سمندر میں پھینک دیا۔ سایہ فوراً غائب ہوگیا، اور سمندر ایک دم پرسکون ہوگیا۔
“یہ کیا تھا؟” زبیر نے گھبرا کر کہا۔
“یہ کچھ ایسا تھا جو انسانوں کے لیے نہیں تھا،” عارف نے دھیمی آواز میں کہا۔
وہ تینوں زندہ تو بچ گئے، لیکن اس رات کے بعد ان کے دل میں سمندر کے لیے ہمیشہ کے لیے خوف بیٹھ گیا۔ انہوں نے اس مہم جوئی کے بارے میں کسی کو نہ بتایا، لیکن ان کی آنکھوں میں وہ دہشت ہمیشہ کے لیے قید ہوگئی۔