Home Blog Page 5

Jadui Pathar

3
jadui-pathar

(Jadui Pathar) جادوئی پتھر

ایک خوبصورت پہاڑی علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں واقع تھا، جسے سب “خوشحال گاؤں” کہتے تھے۔ گاؤں کے لوگ اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن تھے، لیکن ان کے دل میں ہمیشہ ایک خواہش تھی: ایک ایسی چیز جو ان کی زندگیوں میں جادوئی تبدیلی لا سکے۔

ایک دن، گاؤں کے سب سے بہادر لڑکے، علی، نے پہاڑی کی چوٹی پر ایک پراسرار پتھر دیکھا۔ یہ پتھر نہایت خوبصورت تھا اور اس کی سطح پر عجیب و غریب چمک تھی۔ علی نے پتھر کو گھر لانے کا فیصلہ کیا اور اسے گاؤں والوں کے ساتھ شیئر کیا۔ جب سب نے پتھر کو دیکھا، تو ان کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اس پتھر کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اس میں کوئی خاص طاقت ہے۔

گاؤں کے بزرگوں نے پتھر کا معائنہ کیا اور انہیں پتھر میں جادوئی خصوصیات نظر آئیں۔ انہوں نے پتھر کو ہاتھ میں پکڑتے ہی محسوس کیا کہ وہ خود کو پر سکون اور خوش محسوس کر رہے ہیں۔ پتھر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ہر دل کی خواہش پوری کر سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک شرط تھی: پتھر کی طاقت کو صرف سچی نیت سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

خوشحال گاؤں کے لوگوں نے پتھر کو سچائی کے ساتھ استعمال کرنے کی قسم کھائی۔ سب نے اپنی اپنی خواہشات کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پتھر کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے دل کی باتیں کیں۔ علی نے پتھر کی طاقت سے سب کی خوشیوں کے لئے دعا کی اور پتھر نے فوراً چمکنا شروع کر دیا۔

ایک دن، گاؤں میں ایک شدید خشک سالی آئی۔ کھیت سوکھ گئے، پانی کی کمی ہو گئی، اور لوگوں کی زندگی مشکل ہو گئی۔ گاؤں والے پریشان ہو گئے اور پتھر کے پاس پہنچے۔ علی نے پتھر کو اٹھایا اور دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ گاؤں کو پانی ملے۔ جب پتھر نے چمکنا شروع کیا، تو اچانک آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش ہونے لگی۔ گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ پتھر نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ، گاؤں کے لوگوں نے پتھر سے یہ سیکھا کہ سچی خواہش اور نیت کے ساتھ دعا کرنا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ پتھر نے ان کی زندگیوں میں جادوئی تبدیلیاں لائیں، مگر لوگوں نے اس بات کو سمجھا کہ پتھر کی اصل طاقت ان کی خود کی سچائی اور محبت میں تھی۔

ایک دن، گاؤں کے بزرگ نے پتھر سے کہا، “تمہاری طاقت نے ہمیں بہت مدد دی ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب کی خوشی اور خوشحالی کی ذمہ داری ہماری اپنی کوششوں پر منحصر ہے۔” یہ سن کر پتھر کی چمک مدھم ہو گئی اور پھر کبھی نہیں چمکی۔ پتھر نے اپنی طاقت کو گاؤں والوں کی نیک نیتی اور محنت کی طرف اشارہ کیا۔

جادوئی پتھر کی کہانی نے خوشحال گاؤں کے لوگوں کو سکھایا کہ اصلی جادو ان کی نیک نیتی، سچی خواہشات، اور کوششوں میں ہے۔ پتھر نے ان کی زندگیوں میں خوشی اور سکون لایا، لیکن اس کی اصل طاقت ان کے دلوں میں تھی۔ انہوں نے سیکھا کہ جادوئی تبدیلیاں صرف اس وقت ممکن ہوتی ہیں جب انسان اپنے دل سے خالص نیت کے ساتھ کام کرے۔

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں حقیقی جادو ہم خود اپنی نیک نیتی اور محنت سے پیدا کر سکتے ہیں۔ جادوئی پتھر نے گاؤں کو یہ سبق سکھایا کہ ہر مشکل کا حل دل کی سچائی اور کوشش میں چھپا ہوتا ہے۔

Advertisement

ali baba 40 chor

1

(ali baba 40 chor) علی بابا اور چالیس چور

ایک زمانے میں، ایک چھوٹے سے گاؤں میں علی بابا نام کا ایک غریب لکڑہارا رہتا تھا۔ علی بابا کے پاس صرف ایک پرانی بیل گاڑی اور کچھ لکڑی کے گٹھے تھے جنہیں وہ جنگل سے لا کر بیچتا تھا۔ علی بابا ایک ایماندار اور محنتی انسان تھا، لیکن غربت نے اس کی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی پناہ گاہ تھی اور ایک دن گزارنے کے لیے اسے روزانہ جنگل جانا پڑتا تھا۔

ایک دن، جب علی بابا جنگل میں لکڑی کا گٹھہ تیار کر رہا تھا، اس نے اچانک ایک عجیب و غریب آواز سنی۔ وہ خاموشی سے چھپ کر ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا اور دیکھا کہ چالیس مسلح چور ایک پہاڑی غار کے سامنے جمع ہیں۔ ان چوروں کے ساتھ ایک رہنما بھی تھا جو دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ رہنما نے کہا، “کھل جا سم سم!” اور فوراً غار کا دروازہ کھل گیا۔ چور سب اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔

علی بابا نے یہ سب دیکھ لیا اور جب چوروں نے غار میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا تو علی بابا چپکے چپکے غار کے قریب گیا۔ اسے ذرا سا بھی خوف نہیں آیا، بلکہ وہ اپنی جرات اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے دروازے کے پاس پہنچا اور اسی جادوئی الفاظ کو دہرایا: “کھل جا سم سم!” فوراً دروازہ کھل گیا اور علی بابا اندر داخل ہوا۔

علی بابا نے اندر جا کر دیکھا کہ غار کے اندر سونے، چاندی، اور قیمتی جواہرات کا ایک خزانہ تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اس نے دل میں سوچا کہ اس دولت کا کچھ حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے استعمال کرے گا، مگر اس نے سب کچھ نہیں لیا بلکہ صرف ایک بوری سونے کی بھری اور اس کے ساتھ باہر نکلا۔ غار کا دروازہ بند کر کے علی بابا اپنے گھر واپس آیا اور بوری کو چھپانے کے لیے ایک خفیہ جگہ پر رکھ دیا۔

جب چوروں کو پتا چلا کہ ان کا خزانہ چُرا لیا گیا ہے، تو وہ بہت پریشان ہوئے اور غار کا جائزہ لینے کے بعد علی بابا کی موجودگی کا کوئی سراغ نہ ملنے پر وہ مزید فکر مند ہو گئے۔ چوروں نے تفتیش کی اور سمجھا کہ کسی نے باہر سے خزانے کے بارے میں پتا لگایا ہے۔

اس کے بعد، چوروں نے ایک منصوبہ بنایا کہ علی بابا کو تلاش کر کے اس کا سراغ لگایا جائے۔ وہ علی بابا کے گھر تک پہنچے اور اس کے گھر کے ارد گرد جاسوس بھیج دیے۔ لیکن علی بابا ایک ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے جلد ہی سمجھ لیا کہ چور اس کے پیچھے ہیں اور اس کے گھر میں چھپ گیا۔

ایک دن، چوروں نے علی بابا کے گھر کے قریب پہنچنے کے بعد اس کے بھائی قاسم کا گھر چڑھائی کر دی۔ قاسم نے علی بابا کے خزانے کا علم بھی حاصل کر لیا تھا لیکن اس نے خزانے کی بات چوروں سے چھپانے کی بجائے انھیں بتا دیا۔ چوروں نے قاسم کو پکڑ لیا اور اسے دھمکی دی کہ اگر وہ علی بابا کے بارے میں معلومات نہ دے تو اس کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ قاسم نے پریشان ہو کر علی بابا کے گھر کا مقام چوروں کو بتا دیا۔

چور علی بابا کے گھر پر حملہ آور ہوئے، لیکن علی بابا نے اپنی ہوشیاری اور عقل سے کام لیا۔ اس نے چوروں کو دھوکہ دینے کے لیے گھر میں ایک پرفریب حکمت عملی استعمال کی اور انھیں غفلت میں ڈال دیا۔ آخرکار، چوروں نے علی بابا کو گرفتار کر لیا، لیکن علی بابا نے اپنی دانشمندی سے اپنے آپ کو بچایا اور چوروں کو ایک حیلے سے دھوکہ دیا۔

آخر کار، علی بابا نے چوروں کو شکست دی اور ان کا خزانہ اپنی حفاظت میں رکھا۔ اس نے اپنے خاندان کی مدد کی، غربت سے باہر نکلا اور خوشحال زندگی بسر کی۔ علی بابا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عقل، جرات، اور ہوشیاری سے بڑے سے بڑے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اور سچائی کی فتح ہمیشہ ہوتی ہے۔

Advertisement

Shikari Aur Gidar

0

(Shikari Aur Gidar) شکاری اور گیدڑ

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک پرامن گاؤں میں اکبر نامی ایک شکاری رہتا تھا. وہ شکار کرنے میں ماہر تھا. اس کا گاؤں بہت ہی خوشحال تھا. ہر طرف سے سر سبز کھیت اور ہریالی تھی اس کے گاؤں کے لوگ اپس میں اتفاق سے رہتے تھے. اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے.

ایک دفعہ رات کو ایک گیدڑ اس کے گاؤں میں اگیا. کسی ایک شخص نے اس کو اتے ہوئے دیکھ لیا. گیدڑ کھیتوں میں گھس گیا اور کھیت خراب کرنے لگ گیا. گاؤں کے چوہدری کو بتایا گیا کہ گاؤں میں ایک گیدڑ گھس گیا ہے. اور گاؤں کے کھیت خراب کر رہا ہے. اکبر کو بلایا گیا اکبر نے حامی بھر لی کہ وہ جلد ہی اس کو پکڑ لے گا. اور اسے جنگل میں چھوڑ ائے گا

اگلے دن اکبر نے اس کو پکڑنے کی تیاری شروع کر لی. اس نے کچھ جال ایک بندوق اور کچھ تیر وغیرہ لیے اور رات کو ایک درخت پر بیٹھ گیا. اب وہ گیدر کا انتظار کر رہا تھا. وہ کب ائے کچھ گھنٹوں بعد اس نے گیدر کو کھیتوں میں اتے ہوئے دیکھا. گیدر بہت ہی طاقتور لگ رہا تھا. اکبر کے خیال میں تھا کہ وہ اسے اسانی سے پکڑ لے گا. لہذا اس نے اپنے کام میں سنجیدگی نہیں لی اور اس کو اسان لیا

جب گیدڑ کھیتوں میں ایا تو وہ اکبر کے جال میں پھنس گیا لیکن جال اتنے مضبوط نہیں تھے. اور گیدر جال توڑنے میں کامیاب ہو گیا. اکبر کو بہت مایوسی ہوئی اور اس نے افسوس کیا. کہ کاش وہ اس کام کو سنجیدگی اور محنت سے کرتا. اب اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ گاؤں والوں کے ساتھ مل کر اس گیدر کو پکڑے گا

اگلے دن اکبر نے گاؤں والوں کے ساتھ مشورہ کیا اور اور ان کو طریقہ کار بتایا. گاؤں کے ایک ادمی نے اس کو ایک خاص جال کے بارے میں بتایا. جو بہت ہی زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور جس کو شیر جیسی طاقت بھی توڑ نہیں سکتی. اکبر نے اس ادمی کا شکریہ ادا کیا اور اس جال کو تیار کیا. جس کا ادمی نے ذکر کیا تھا پہلے تو اکبر نے ازمایا کہ جال واقع ہی مضبوط ہے

پھر اکبر نے تسلی کے بعد اس جال کو کھیتوں میں لگا دیا. اور اپنی پوری تیاری کے ساتھ رات کا انتظار کر رہا تھا. رات ہو گئی اکبر دوبارہ اس درخت پر بیٹھ گیا اور اس گیدر کا انتظار کرنے لگا. لیکن گیدر نہیں ایا. پہلے تو اکبر نے سوچا لگتا گیدڑ بھاگ گیا ہے یا پھر گاؤں میں داخل ہو گیا ہے. ادھر گاؤں والے بھی اکبر کے مشورے کے مطابق گاؤں کی نگرانی کر  رہے تھے 

اکبر کا خیال درست تھا گیدر کھیتوں میں گھسنے کی بجائے گاؤں میں داخل ہو گیا تھا. گاؤں والوں نے اکبر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کیا اور گیدر کو بھاگنے پر مجبور کر دیا. گیدر گاؤں سے بھاگتا بھاگتا کھیتوں کی طرف چلا گیا ادھر کھیتوں میں اکبر اس کا انتظار کر رہا تھا. جب گیدر کھیتوں میں گیا. تو وہ مضبوط جال میں پھنس گیا اور اس مرتبہ وہ جال کو نہ توڑ سکا. اور ہمت ہار گیا. گاؤں والوں نے اکبر کا بہت  شکریہ ادا کیا. اکبر کو انعامات سے نوازا گیا. اور اسے گاؤں کے چودری کی طرف سے ایک مکان اور پانچ لاکھ روپے انعامات کے طور پر دیے گئے

اخلاقی سبق

 پیارے دوستو اس کہانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے. کہ ہمیں ہر کام محنت سنجیدگی اور مشورے کے ساتھ کرنا چاہیے. اس کہانی میں جس طرح اکبر نے پہلی مرتبہ سنجیدگی نہیں لی اور کام کو اسان سمجھا. لیکن ناکام ہوا بعد میں اس کی سنجیدگی گاؤں والوں کے ساتھ مشورہ اور محنت کے ساتھ وہ کامیاب ہوا

Advertisement

Jadui kahani in urdu

0

(jadui kahani in urdu) کرسٹل چابی

ایک دفعہ کا ذکر ہے. کہ ایک قدیم گاؤں میں پہاڑیوں اور سرگوشیوں کے جنگلوں کے درمیان ایک پرانی جھونپڑی تھی. جس کی حالت بہت ہی خراب تھی. اس کی  دیواریں بہت ہی خستہ حالت میں تھی.  اور اس کی چھت جھکی ہوئی تھی. یوں لگ رہا تھا جیسے یہ چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہیں. اس جھونپڑی میں ایک راز تھا جو بہت ہی پرانا تھا

جھونپڑی کے اندر خاک الود فرش بورڈوں کے نیچے ایک کھڑکی تھی. جو کہ کئی عرصے سے بند پڑا تھی کہا جاتا تھا. جس کے پاس اس کی چابی ہوگی وہ بہت سے رازوں کو جان لے گا. کچھ کا خیال تھا کہ یہ ایک افسانہ ہے. جبکہ دوسروں نے تاریخ سچائیوں کے بارے میں سرگوشی کی. اسلم ایک نوجوان مرد اس کی افسانوی قلید کی کہانیاں سن کر بڑا ہوا تھا. وہ اکثر جنگلوں میں گھومتا تھا. پہاڑوں پر چڑھتا تھا اور اپنے گاؤں کے قریب کھنڈرات کی کھوج کرتا تھا. ہمیشہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہتا تھا

 ایک شام جب سورج ڈوب رہا تھا. اور زمین پر سنہری چمک ڈال رہا تھا. اسلم اپنے والد کے مطالعے میں ایک پرانی کتاب پر ایا یہ بہت ہی عجیب تھا. یہ سیاہ چمڑے میں چکری ہوئی تھی اور عجیب و غریب علامتوں سے مزین تھی. اس کے صفحات بہت ہی نازک حالت میں تھے. جو کہ پیلے تھے اس کے نازک صفات کے اندر سے اسے ایک اشارہ ملا. جو کہ ایک جھونپڑی میں پوشیدہ ہے

 سچائی سے پردہ اٹھانے کے لیے اسلم نے سامان کے ساتھ ایک تھیلا باندھا. اور خفیہ الفاظ کے ذریعے اگلی صبح سویرے نکلا. اس کا سفر اسے جنگل کی گہرائی میں لے کے جہاں درخت لمبے اور گھنے ہوتے گے. درختوں کی شاخیں اپس میں ملی ہوئی تھی. جن کی وجہ سے چھتریاں بنی ہوئی تھیں. اور وہ سورج کی روشنی کو روک رہی تھی. گھنٹوں چلنے کے بعد وہ ایک چھپی ہوئی گلیڈ سے ٹھوکر کھا گیا. اس کے مرکز میں زمین میں ایک لمبا چمکتا ہوا کرسٹل کھڑا تھا

ایسا لگتا تھا کہ کرسٹل ایک اندرونی توانائی رکھتا ہے. ایک نرم گونج ہوا میں ہل رہی تھی. اسلم اگے بڑھا جیسے ہی وہ کرسٹل کو چھونے کے لیے اگے بڑھا. تو ایک تیز سی روشنی اس کے ہاتھ پر پڑی اور نکل گئی. جب اس نے اپنی ہتھیلی کو دیکھا. تو اس پر کٹ لگا ہوا تھا. وہ فورا پیچھے ہٹا خون کا ایک قطرہ کرسٹل کی سطح پر گرا. کرسٹل پر خون کے قطرے کے گرنے کی وجہ سے وہ اور زیادہ چمکنے لگا. یہاں تک کہ اسلم کو اپنی انکھیں بند کرنی پڑی

 جب روشنی ختم ہوئی تو اس نے کرسٹل کی بنیاد پر کچھ چمکتی ہوئی چیز دیکھی. یہ ایک چھوٹی سی ڈیزائن کی گئی چابی تھی جو کہ ایک عجیب و غریب دھات سے بنی ہوئی تھی. جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس کے مرکز میں ایک جواہر تھا. جو کرسٹل جیسی روشنی سے چمکتا تھا اس نے اس چابی کو اٹھایا. اپنے پاس موجود چابی کے ساتھ اسلم جلدی سے گاؤں واپس چلے گیا. اس کا دل جوش اور خوف کے ساتھ دھڑک رہا تھا. اب اس نے جھونپڑی جانا تھا جہاں پر وہ راز چھپا ہوا تھا

اگلے دن وہ پرانی جھونپڑی میں پہنچا وہ جھونپڑی میں داخل ہوا. جھونپڑی کی خستہ حالت کو دیکھ کر اس کا دل کانپ رہا تھا. کیونکہ وہ بہت ہی نازک حالت میں تھی اور ایسا لگتا تھا. جیسے کہ وہ ابھی گر جائے گی اس نے لکڑیوں کے تختوں کو دیکھا. لکڑی کے تختوں کو کھینچتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے. جیسا کہ اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا کہ وہ راز ایک خاک اور بورڈ میں رکھا ہوا تھا

جب اس نے بورڈ کو ہٹایا تو اسے ایک تالا نظر ایا. اس نے گہرا سانس لے کر اس تالے میں چابی ڈالی. ایک لمحے کے لیے تو کچھ نہیں ہوا. پھر تھوڑی دیر بعد اس کا سینہ کھل گیااندر لپٹا ہوا ایک بہت کرسٹل شارٹ تھا. جو اس نے جنگل میں پایا تھا. یہ ہلکی ہلکی روشنی سے چمک رہا تھا. اس نے جیسے ہی اس کو دیکھا اسے ایسا لگا جیسے وہ اس کی گہرائیوں میں کھینچا جا رہا ہو

جیسے ہی اس نے اس کو چھوا تو وہ فورا وہاں سے غائب ہو گیا. اور ایک الگ دنیا میں داخل ہو گیا. سر سبز گھاس درخت خوبصورت پرندے اور ندی جس طرح کے ایک قدرت کی خوبصورت دنیا میں داخل ہو گیا. ہو وہاں پر اس نے پھل دیکھے اسلم کو بہت ہی بھوک لگ رہی تھی. کیونکہ جو وہ اپنا سامان لایا تھا وہ جھونپڑی میں ہی تھا پہلے اسلم بہت ہی گھبرایا ہوا تھا. کہ پتہ نہیں ان درختوں کے پھل ٹھیک ہوں گے یا نہیں. لیکن بھوک نے اسے بہت ہی مجبور کر دیا تھا

پھر اسلم نے ایک درخت سے سیب کو توڑا اور اس کو کھایا. وہ بہت ہی حیران ہوا کیونکہ سیب کا ذائقہ بہت ہی لذیذ اور میٹھا تھا. اس طرح کا سیب اس نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا. سیب کھانے کے بعد وہ ادھر ادھر دیکھنے کے لیے چلنے لگا. اس کو نہیں پتہ تھا کہ وہ ہزار سال پرانے دور میں داخل ہو گیا تھا. جب اس نے کچھ فاصلہ طے کیا تو اس نے ایک ڈائنوسار دیکھا. وہ بہت ہی خوفناک تھا اسلم وہاں سے بھاگا. جب اس نے اسمان کی طرف دیکھا تو اسے کچھ بڑے پرندے دکھائی دیے. جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے

 اب اسلم گھبرا رہا تھا کہ وہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہے. اس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا. لیکن اس کو سمجھ نہیں ارہا تھا. کہ وہ واپس کس طرح جائے وہ واپس جانے کا راستہ تلاش کرنے لگا. ابھی وہ تلاش ہی کر رہا تھا. کہ اس نے ایک روشنی دیکھی وہی روشنی جو اس نے جھونپڑی میں دیکھی تھی. اس کی امیدیں بڑھ گئی وہ اس روشنی کے پاس گیا. لیکن کچھ نہ ہوا اسے بہت حیرانگی ہوئی. پھر اس کو خیال ایا کہ جہاں اس نےڈائنوسار کو دیکھا تھا. وہاں بھاگنے کے دوران اس کی کرسٹل چابی گر گئی تھی

ایک لمحے کے لیے وہ گھبرایا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری. وہ واپس وہاں گیا اور چابی کو تلاش کرنے لگا. اب ادھر اس نے کئی ڈائنوسار دیکھے. لیکن وہاں اس نے احتیاط اور چھپ چھپ کر چابی تلاش کرنے کی کوشش کی. اچانک اس کو ایک روشنی دکھائی دی گئی وہ چابی کی ہی روشنی تھی اس کو بہت خوشی ہوئی. اس نے فورا چابی کو وہاں سے اٹھایا اور بھاگنے لگا

بھاگنے کے دوران ایک چھوٹا ڈائناسور نے اسے دیکھ لیا. وہ اس کی طرف لپکا ڈائنوسار ابھی چند مہینے کا ہی تھا. اس وجہ سے وہ اتنا زیادہ تیز نہیں بھاگ سکتا تھا. اسی وجہ سے اسلم کی رفتار ڈائنوسار سے کہیں زیادہ تھی اور وہ اس سے بچ نکلا. اسلم فورا اس روشنی کے پاس گیا اور اس نے وہ چابی اس کی طرف کی. کچھ دیر بعد و ہ ایک جھونپڑی میں پایا گیا. یہ وہی جھونپڑی تھی جہاں وہ ایا تھا. اسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ اس مصیبت سے بچ نکلا

اب اس نے سوچا اور عہد کیا. کہ وہ اس طرح کی چیزوں میں دلچسپی نہیں لے گا. اور اپنی پڑھائی اور روز مرہ کی زندگی کے لیے وقت دے گا. اسلم نے فورا اپنا تھیلا اٹھایا اور اپنے گھر کی طرف جانے لگا. اس کے گھر والے اسلم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے. پھر اسلم نے اپنا سارا واقعہ بتایا اور گھر والوں سے عہد کیا. کہ وہ ائندہ اجازت کے بغیر کہیں نہیں جائے گا. اور ہر کام کرنے سے پہلے وہ ان سے مشورہ لے گا

Advertisement

Islam mein wazu ka tarika kia hai and why is it necessary?

1

Wazu ka tarika

Wazu is an important act of worship in Islam that is obligatory on every Muslim, and it is of great importance. wazu is actually a symbol of physical cleanliness and spiritual purity. islamic wazu is necessary for performing acts of worship such as prayer, recitation of the Qur’an, and other acts of worship. The original basis of wazu is found in the Qur’an and Sunnah, and its purpose is to ensure physical and spiritual cleanliness.

وضو کرنے کا طریقہ کار قرآن مجید اور سنت نبوی سے واضح ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، “اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے قیام کرو تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور اپنے سر کا مسح کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوؤ” (سورۃ المائدہ، 5:6)۔ اس آیت میں وضو کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں چہرہ، ہاتھ، سر اور پاؤں کو دھونا شامل ہے۔

وضو کی ضرورت اور اہمیت کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، وضو جسمانی صفائی کی علامت ہے۔ اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، اور وضو جسمانی صفائی کے ذریعے روحانی طہارت کی تیاری کرتا ہے۔ نماز اور دیگر عبادات کے لیے صاف ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق استوار کرنے کا ذریعہ ہیں۔ صاف جسم اور دل کے بغیر عبادات کی قبولیت کی امید نہیں کی جا سکتی۔

وضو کا عمل روحانی فوائد بھی فراہم کرتا ہے۔ وضو کے دوران انسان کی سوچ اور نیت صاف ہو جاتی ہے، اور یہ عمل انسان کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہے۔ وضو کی حالت میں آدمی زیادہ توجہ کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔ اس طرح وضو روحانی طہارت کا ذریعہ بھی ہے جو عبادت کے دوران دل کی پاکیزگی اور ذہنی توجہ کو بہتر بناتا ہے۔

وضو کی عبادت میں سماجی اور نفسیاتی پہلو بھی شامل ہیں۔ وضو کرنے کے بعد انسان خود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے، جس سے اس کی جسمانی اور ذہنی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔ یہ عمل انسان کو ایک مخصوص وقت کے لیے دنیاوی مشغولیات سے ہٹ کر روحانی خیالات میں مشغول کر دیتا ہے، جو کہ ایک خاص قسم کی ذہنی سکونیت فراہم کرتا ہے۔

اسلامی فقہ میں وضو کے کچھ اہم اصول اور آداب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً وضو کی حالت میں کوئی بھی غیر ضروری عمل کرنا یا باتیں کرنا منع ہے۔ وضو کے عمل کے دوران کوئی بھی گناہ یا غیر ضروری کام کرنا، وضو کے اثرات کو کمزور کر سکتا ہے۔ اسی طرح، وضو کے بعد نماز پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ وضو کی حالت نماز کے لیے تیار کرتی ہے اور نماز کی روحانیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

اسلامی معاشرت میں وضو کے بعض علامتی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں۔ وضو کا عمل انسان کو صفائی کی اہمیت سمجھاتا ہے اور اسے صحت مندی کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وضو کا عمل مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے اور انہیں اپنی جسمانی اور روحانی صفائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، وضو کی حالت میں رہنا معاشرتی طور پر بھی ایک علامت ہے کہ انسان عبادات میں مصروف ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں ہے۔

اسلام میں وضو کی اہمیت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ عبادت کی تیاری کا حصہ ہے۔ نماز کے وقت، وضو کے بغیر نماز پڑھنا منع ہے، اور وضو کرنے کے بعد ہی نماز کی قبولیت کی امید رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، وضو ایک روحانی عبادت ہے جو ہر مسلمان کی زندگی میں روزمرہ کا حصہ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قریب لانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

وضو کے اصول اور قوانین کی پیروی کرنا، نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی فوائد بھی فراہم کرتا ہے۔ صفائی، روحانی طہارت، اور عبادت کی تیاری کے علاوہ، وضو کے ذریعے انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں نظم و ضبط اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں وضو کی پیروی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہ ہر مسلمان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔

اس طرح وضو نہ صرف اسلامی عبادات کا حصہ ہے بلکہ ایک جامع نظام ہے جو جسمانی، روحانی اور معاشرتی فوائد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں صفائی، طہارت، اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو میں اعضا کا دھونا ایک ایک مرتبہ فرض ہے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو بار دھو کر بھی وضو کیا ہے اور اور تین تین بار  بھی ہاں تین مرتبہ سے زیادہ نہیں کیا اور علماء نے وضو میں پانی کا زیادہ استعمال کرنے کو مکروہ کہا ہے کہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فعل سے اگے بڑھ جائیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے ۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے ( یعنی وضو اچھی طرح کرے )
صحیح بخاری جلد 1 حدیث 136

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ پھر ( تھوڑی دیر بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آ پہنچا تھا ۔ ہم وضو کرنے لگے اور ( اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں ) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا ۔
صحیح بخاری جلد 1 حدیث 163

Advertisement

Shahzada aur shehzadi ki kahani

0

(Shahzada aur shehzadi ki kahani) شہزادہ اور شہزادی کی کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سلطنت میں اکبر نام کا بادشاہ تھا. بادشاہ بہت ہی رحم دل اور نیک تھا اس کا ایک بیٹا تھا. جس کا نام شہزادہ اصغر تھا. شہزادہ عصر بادشاہ کا لاڈلا تھا. شہزادہ اصغر بہت ہی بہادر اور اسے شکار کرنے کا شوق تھا. شہزادہ روزانہ شکار کرنے کے لیے جنگل میں جاتا بادشاہ نے اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ کچھ سپاہی بھیجتا تھا

 ایک دن  شہزادے نے سپاہیوں کو روک دیا اور کہا کہ اج وہ اکیلا شکار کے لیے جنگل میں جائے گا شہزادے نے کچھ سامان لیا اور شکار کے لیے جنگل میں چلا گیا جب وہ جنگل پہنچا تو اس نے ایک خوبصورت ہرن دیکھا شہزادہ بہت خوش ہوا کہ اج اسے ایک اچھا شکار ملے گا شہزادے نے ہرن کا پیچھا کیا لیکن ہیرن کی رفتار شہزادے کے گھوڑے سے کہیں زیادہ تھی اور شہزادہ اس کا شکار نہ کر سکا ہیرن کا پیچھا کرتے کرتے شہزادہ اپنا راستہ بھول گیا تھا رات ہو گئی تھی شہزادے نے رات گزارنے کے لیے جنگل میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا جنگلی جانوروں سے بچنے کے لیے شہزادے نے ایک درخت کے اوپر رات گزاری

اگلے دن صبح سویرے شہزادے نے واپس جانے کے لیے تیاری کی شہزادہ واپس اپنے محل کی طرف جا ہی رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک خوبصورت لڑکی دکھائی دی لڑکی ندی کے کنارے بیٹھی گیت گا رہی تھی شہزادہ ایک دم رک گیا پہلے وہ لڑکی کی طرف دیکھتا رہا اور حیران تھا کہ اتنے گنے جنگل میں لڑکی کا یہاں کیا کام ہے اخر کار شہزادہ لڑکی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے لڑکی نے بتایا میرا نام ملکہ عالیہ ہے اور میں دوسری سلطنت سے تعلق رکھتی ہوں کچھ عرصہ پہلے میرے والد یہاں پر شکار کرنے کے لیے اتے تھے

ایک دن وہ شکار کرنے کے لیے یہاں ائے لیکن پھر نہ ملے میں ان کو ڈھونڈنے کے لیے روزانہ اتی ہوں لیکن ان کا کچھ پتہ نہ چلا شہزادے نے کہا کیا میں اپ کی مدد کر سکتا ہوں شہزادی نے کہا ہاں ضرور لیکن یہ بہت مشکل ہے کیونکہ جنگل میں ایک بوڑھا ادمی رہتا ہے مجھے اس سے پتہ چلا کہ کہ میرے والد کو ایک جن اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ ایک غار میں رہتا ہے شہزادہ بولا تم مجھے اس بوڑھے ادمی کے پاس لے جاؤ شہزادی اس کو بوڑھے  ادمی کے پاس لے گئی بوڑھا ادمی نیک ادمی لگتا تھا وہ سفید لباس میں ملبوس تھا اور ایک جھونپڑی میں رہتا تھا

شہزادی پہلے جھونپڑی میں گئی اور اس بوڑھے ادمی سے شہزادے کی بات کی بوڑھے ادمی نے اسے اندر انے کی اجازت دی شہزادہ جھونپڑی میں داخل ہوا بوڑھے ادمی نے پہلے اس سے کہا کہ یہ اسان کام نہیں ہے میں تمہیں شہزادی کے والد کو بازیاب کرانے کے لیے ایک گورا ایک جادوئی قالین دوں گا کیونکہ غار پہنچنے کا سفر  بہت زیادہ ہے گھوڑا تمہیں جلد پہنچا دے گا غار کے نزدیک کچھ چٹانے ہیں جس پر  اس جن کے کچھ غلام ہیں جو تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں یہ قالین تمہیں ان سے نجات دلوائے گا

شہزادے نے بوڑھے ادمی سے گورا اور قالین لیا اور شہزادی کے والد کو بچانے کے لیے نکل پڑا وہ گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑا بھاگنے لگا شہزادہ بتائے ہوئے راستے پر چل پڑا گھوڑے کی رفتار بہت زیادہ تھی اس نے کئی میل کا سفر چند گھنٹوں میں عبور کر لیا شہزادے نے جنگل ختم ہونے کے بعد کچھ چٹانیں دیکھیں اوراس کو بوڑھے ادمی کی بات یاد ائی کہ ان چٹانوں پہ جن کے کچھ غلام ہیں جو اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں

  شہزادے نے فورا جادوئی قالین نکال لیا اور اس پر سوار ہو گیا کلین ہوا میں اڑنے لگا اور غار کی طرف بڑھنے لگا غار پہنچنے پر شہزادے نے قالین کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا اور غار کے اندر داخل ہو گیا غار میں اندھیرا تھا شہزادے نے اگ جلائی تاکہ وہ کچھ دیکھ سکے غار میں عجیب و غریب اوازیں ا رہی تھیں وہ ایک الگ دنیا تھی اچانک ایک طرف سے روشنی دکھائی دی شہزادہ اس کی طرف بڑھا روشنی ایک کمرے سے ا رہی تھی جب وہ کمرے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کئی لوگ مٹی کے پتلوں میں تھے شہزادے نے سوچا کہ ضرور یہاں پر شہزادی کے والد ہوں گے ابھی شہزادہ مٹی کے پتلوں کے پاس گیا کہ پیچھے سے اواز ائی

!!!! ہا ہا کون ہو تم

شہزادے نے بتایا کہ میں شہزادہ اصغر ہوں اور میں شہزادی عالیہ کے والد کو بچانے کے لیے ایا ہوں  جن نے کہا تم بھی اب ان کی طرح مٹی کے پتلے میں بدل جاؤ گےجن نے اپنی جادوئی چھڑی نکالی اور شہزادے پر جادو کرنے لگا شہزادہ بہادر تھا شہزادے نے ڈرنے کی بجائے فورا اپنی جگہ بدلی اور جن کے وار سے بچ گیا جن نے دوبارہ اس پر جادو کرنے کی کوشش کی شہزادے نے سائیڈ پر رکھے ہوئے شیشے کو اٹھایا اور جن کی چھڑی کے سامنے کر دیا جن کا جادو شیشے پر ٹکرانے کے بعد جن کی طرف لپکا اور جن مٹی کے پتلے میں بدل گیا شہزادے نے جلدی ہی حل تلاش کرنے کی کوشش کی کہ شہزادی کے والد کو کس طرح مٹی کے پتلے سے انسان بنایا جائے

شہزادہ پورے غار میں اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا کچھ گھنٹوں بعد اسے ایک کمرے میں ایک خوبصورت طوطا نظر ایا شہزادے نے پہلے اس پر توجہ نہ دی پھر سوچا کہ مجھے پورے غار میں کچھ نہیں ملا ضرور جن کی طاقت اس طوطے میں ہوگی شہزادے نے فورا اس طوطے کو پکڑا اور اس کی گردن توڑ دی اچانک ایک زوردار اواز ائی اور پھر اس کے بعد انسانوں کی اوازیں انے لگی حیران کی بات یہ بھی تھی کہ طوطے کی گردن دوبارہ ٹھیک ہو گئی اور طوطا اڑ گیا شہزادے نے بھاگ کر اس کمرے کی طرف گیا اور دیکھا شہزادی کا والد زندہ صحیح سلامت تھا جب کہ جن راکھ میں بدل گیا تھا

شہزادے نے شہزادی کے والد کو جلد ہی قالین پر بٹھایا اور واپس اس بوڑھے ادمی کی جھونپڑی کی طرف جانے لگا قالین اس کو جلد ہی جھونپڑی کی طرف لے گیا شہزادی اپنے والد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس نے شہزادے کا شکریہ ادا کیا شہزادی کے والد نے شہزادے کو اپنی سلطنت میں دعوت دی شہزادے نے قبول کر لی اگلے دن شہزادہ دعوت پر گیا لیکن اب اس کے ساتھ بادشاہ اکبر بھی تھا

بادشاہ اکبر اور شہزادہ جب دعوت پر پہنچے تو شہزادی کے والد کو دیکھ کر بادشاہ اکبر حیران ہوا کہ وہ بچپن میں اپس میں دوست ہوا کرتے تھے بہت عرصے کے بعد دونوں دوستوں کو ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی انہوں نے دستر خواں پر خوب باتیں کی اور شہزادے اور شہزادی کی شادی کی بات کی اس طرح کچھ دنوں بعد شہزادے اور شہزادی کی شادی ہو گئی اور دونوں دوستوں نے اپنی دوستی رشتے داری میں بدل ڈالی اور دونوں نے ہنسی خوشی میں اپنی زندگی بسر کی

Advertisement

Chunti aur tidda ki kahani in urdu

0

(chunti aur tidda ki kahani in urdu) چیونٹی اور ٹڈا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک چیونٹی اور ٹڈی رہتی تھی چیونٹی بہت ہی محنتی تھی وہ دن بھر کام کرتی اور پھلوں کے بیج پھلوں کے بیج اور خوراک اکٹھا کرتی جبکہ ٹڈی سارا دن گانا گانے اور ناچنے میں گزار دیتی

ایک دن جب چیونٹی ایک بیج کا دانہ اٹھا کر اپنے گھر واپس لے کر جا رہی تھی تو اس کی ملاقات ٹڈی سے ہوئی ٹڈی بولی چیونٹی بہن تم نے کافی خوراک اکٹھی کر لی ہے اس کے باوجود تم پھر دن بھر محنت کر رہی ہو تم ارام سے بیٹھ کر کھا سکتی ہو

چیونٹی بولی یہ خوراک تو اس موسم کی ہے لیکن موسم سرما کی خوراک بھی اکٹھی کرنی ہے تاکہ اس موسم میں تکلیف نہ اٹھانی پڑے ٹڈی نے اس کی بات پر غور نہ کیا اور اس کو ہوا میں اڑا دیا اور اس کا خوب مذاق اڑایا چیونٹی خاموشی سے واپس چلی گئی اور اپنا کام شروع کر دیا برسات کا مہینہ شروع ہو گیا تھا ٹڈی اب بھی سارا دن مزے کرتی اور موسم کا لطف اٹھاتی لیکن چیونٹی اسی طرح اپنی محنت جاری رکھتی اور خوراک تلاش کرتی اور اس کو اپنے گھر میں جمع کر لیتی

دن گزرتے گئے دن ہفتوں میں بدل گئے اور ہفتے مہینوں میں ہوائیں ٹھنڈی چلنے لگی درختوں کے پتے جھڑنے لگے موسم سرد شروع ہو گیا تھا اب ٹڈی کو بھی رات کو ٹھنڈ لگ رہی تھی اور بھوک کی شدت کی وجہ سے اس کا برا حال تھا وہ اپنے پچھلے دنوں کو یاد کر کے پچھتا رہی تھی کہ اس نے کس طرح اپنے دنوں کو کام کرنے کی بجائے ارام طلبی میں گزاری

اب اس کے ذہن میں چیونٹی کا ہی خیال ا رہا تھا کہ چیونٹی ہی اس کی مدد کر سکتی ہے وہ چیونٹی کے پاس گئی اور اس سے مدد کی التجا کی چیونٹی نے تو پہلے منع کر دیا لیکن ٹڈی کی حالت دیکھ کر اس کو ترس اگیا ٹڈی بہت شرمندہ تھی اور اس سے معافی مانگی کیونکہ ٹڈی اس کو کام کرنے سے منع کرتی تھی اور اس کا مذاق اڑاتی تھی

چیونٹی نے اس کو گھر میں جگہ دی اور کھانے کے لیے کچھ دیا اس طرح ٹڈی نے پورا موسم سرما چونٹی کے ہاں گزارا ٹڈی نے وعدہ کیا کہ ائندہ وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرے گی اور محنت سے کام کرے گی

نتیجہ

پیارے دوستو ہمیں اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ وقت بہت ہی قیمتی چیز ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے اور انے والے وقت کی پہلے سے تیاری کر لینی چاہیے

Advertisement

Sher Aur Chuha

1
sher-aur-chuha

(Sher Aur Chuha) شیر اور چوہا 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں شیر رہتا تھا شیر بہت ہی طاقتور تھا جنگل کا ہر جانور اس سے ڈرتا تھا اور اس کا نام لینے سے کانپ جاتا تھا اسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا چوہا کافی ہوشیار اور چلاک تھا اور مصیبت کے وقت گھبراتا نہیں تھا بہت سے جانور اس سے مدد لیتے تھے اور وہ کافی مشہور تھا ایک دن چوہا جنگل میں خوراک کی تلاش کے لیے نکلا لیکن اسے خوراک نہیں ملی

وہ ادھر ادھر پھرتا رہا لیکن بے بس ہو گیا ادھر ادھر گھومتے ہوئے اسے کچھ نہ پتہ چلا کہ وہ کہاں تھا وہ اپنا راستہ بھول گیا تھا وہ شیر کے علاقے میں داخل ہو گیا تھا شیر سو رہا تھا چلتے چلتے وہ شیر سے ٹکرا گیا شیر جاگ گیا اور بہت زور سے گرجا چوہا بہادر تھا وہ گھبرایا نہیں اور شیر سے بات کی کہ میں خوراک کی تلاش میں نکلا تھا مجھے کچھ نہیں ملا میں معافی چاہتا ہوں کہ اپ سے ٹکرا گیا اور اپ کی نیند خراب کر دی مجھے معاف کر دیجیے اور چھوڑ دیجیے

پہلے شیر کو تو بہت غصہ ارہا تھا کہ اس نے اس کی نیند خراب کر دی لیکن چوہے کی بار بار التجا نے اس کا دل رحم کر دیا شیر کو ترس اگیا اور اس نے اس کو چھوڑ دیا اور چوہے کو کچھ کھانے کے لیے دیا چوہے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جاتے جاتے چوہے نے شیر کو کہا ایک دن میں تمہارے ضرور کام اؤں گا  شیر زور سے ہنسا اور کہا کہ تو چھوٹا سا جانور میرے کیا کام ائے گا

کچھ ہفتے گزرے ہی تھے کہ کہ چند شکاری شکار کرنے کے لیے اس جنگل میں ائے انہوں نے شیر کو دیکھا اور منصوبہ بنایا کہ اس کو اپنے جال میں پھنسائیں گے اور اور بیچ کر خاصی رقم کمائیں گے انہوں نے جال کو بچھایا اور شیر کو جال میں پھنسنے کا انتظار کرنے لگے چند گھنٹوں بعد شیر اس جال میں پھنس گیا وہ بہت خوش ہوئے لیکن وہ کافی تھکے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کھا لینا چاہیے پھر ہم شیر کو پنجرے میں بند کر دیں گے شیر بے بس ہو گیا تھا کیونکہ جال بہت مضبوط تھا

اچانک چوہے کا وہاں سے گزر ہوا شیر کو مصیبت میں دیکھ کر وہ رک گیا اس نے شیر سے کہا شیر میاں گھبراؤ مت میں اگیا ہوں میں تمہیں اس جال سے ازاد کروا دوں گا پہلے تو شیر نے سمجھا کہ یہ چھوٹی سی جان مجھے کیا بچائے گی اور اس پر اعتماد نہیں کیا لیکن چوہے نے اپنے تیز دانتوں سے چند منٹوں میں جال کو ایک طرف سے کاٹ دیا جال کٹ گیا تھا اور شیر ازاد ہو گیا تھا

شیر بہت حیران تھا اور اس کو بہت خوشی بھی تھی کہ اس کی جان بچ گئی اس نے چوہے کا بہت شکریہ ادا کیا شیر بہت شرمندہ تھا کہ وہ اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا اس نے چوہے سے معافی مانگی چوہے نے کہا شیر میاں شرمندہ مت کرو اج سے ہم دوست ہیں اور جنگل میں ہر جانور کی مصیبت اور پریشانی کو دور کریں گے شیر نے وعدہ کیا کہ اج سےوہ ہر جانور کے کام ائے گا 

ادھر شکاری کھانا کھانے کے بعد شیر کی طرف ائی شیر کو ازاد دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور گاڑی پکڑ کر جنگل سے بھاگ گئے شیر اور چوہا خوب ہنسے

اخلاقی سبق

پیارے دوستو اس کہانی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد رکھتی ہے

Advertisement

hiran aur sher ki kahani

0

(hiran aur sher ki kahani) ہرن اور شیر کی کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک ہرن اور ایک شیر رہتے تھے . دونوں کی اپس میں گہری دوستی تھی جنگل  کے دوسرے جانور اس دوستی پر حیران تھے کہ ایک ہرن اور شیر کیسے اپس میں دوست ہو سکتے ہیں ہرن ایک رحم دل جانور تھا وہ شیر کے ہر کام کرتا تھا اور مصیبت کے وقت اس کی مدد کرتا تھا

جبکہ شیر میں ایک خامی تھی وہ ایک خود غرض جانور تھا اور صرف اپنا ہی سوچتا تھا ایک دن ہرن کے گھر میں کچھ مہمان ائے ہرن نے ان کے لیے کھانا پکایا لیکن پکانے کے دوران اس کا نمک ختم ہو گیا تھا وہ نمک لینے کے لیے شیر کے پاس گئی اور بولی شیر بھیا میرے گھر میں کچھ مہمان ائے ہیں میں ان کے لیے سالن پکا رہی ہوں کیا اپ مجھے تھوڑا سا نمک دے سکتے ہیں

شیر پہلے سمجھا کہ شاید ہیرن کچھ کھانے کے لیے لے کر ائی ہے لیکن جب اسے پتہ چلا کہ یہ تو نمک مانگنے ائی ہے تو اس نے فورا منہ بنا لیا اور کہنے لگا بہن ہرن میرے پاس نمک نہیں ہے ہرن کہنے لگی ایسا نہ کرو کل ہی تو تم لے کر ائے تھے شیر بولا جاؤ اپنا کام کرو یہ میرے کام کا ہے میں ہی اسے استعمال کروں گا ہرن بولی میں تمہاری ہر مصیبت میں کام اتی ہوں شیر نے غصے میں اس کو جواب دیا میں نے تمہیں نمک نہیں دینا جاؤ اپنا کام کرو

ہرن مایوسی سے اپنے گھر میں واپس چلی گئی ہیرن کا گھر درخت کی لکڑیوں سے بنا ہوا تھا اور بہت مضبوط تھا جب کہ شیر کا گھر مٹی سے بنا ہوا تھا رات کا وقت ہوا بادل گرجے اور زوردار بارش ہوئی چونکہ شیر کا گھر مٹی سے بنا ہوا تھا نرم پڑ گیا اور اس کی چھت گر گئی پانی ٹپکنے لگا

اب شیر نے رات گزارنی تھی اس کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں تھی جبکہ ہیرن کا گھر لکڑیوں سے بنا ہوا تھا اور مضبوط تھا شیر کو ہیرن کا گھر یاد ایا وہ اس کی طرف گیا اور ہرن سے منتیں کی کہ مجھے ایک رات کے لیے رہنے دو صبح ہوتے ہی میں اپنا گھر دوبارہ تعمیر کروں گا پہلے ہرن کو تو بہت غصہ ایا لیکن ہیرن ایک رحم دل جانور تھا اس نے شیر کو رہنے کے لیے جگہ دے دی

بارش کی وجہ سے شیر کو بخار چڑھ گیا تھا کئی دن گزر گئے شیر کا بخار نہیں اترا چند ماہ بعد شیر صحت یاب ہو گیا لیکن ان مہینوں میں شیر بہت ہی شرمندہ تھا کہ اس نے ہرن کو نمک نہیں دیا لیکن اس کے باوجود ہرن نے اس کے ساتھ اتنا اچھا برتاؤ کیا اس نے ہرن سے معافی مانگی اور ائندہ اس کی ہر مصیبت میں کام کرنے اور اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا

اخلاقی سبق

پیارے دوستو اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ دوستی صرف نام ہی نہیں ہے دوستی مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کام انے کو ہےہمیں مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کام انا چاہیے تاکہ زندگی کی مشکلات اسانی میں تبدیل ہو جائیں 

Advertisement