Home Blog Page 4

Dhoka

0
dhoka

(Dhoka) دھوکہ کی دنیا

علی حسن ایک کامیاب اور ذہین بزنس مین تھا۔ وہ زندگی کے ہر پہلو میں کامیاب تھا اور اس کی محنت نے اسے شہر کا ایک معزز اور خوشحال انسان بنا دیا تھا۔ علی حسن کا بزنس دنیا میں ایک نام تھا اور لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت علی نے ایک کامیاب بزنس ایمپائر کھڑی کی تھی، اور اس کی کمپنی ملک کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی۔

اس کی کامیابی کا راز اس کی ذہانت اور اصول پرستی میں پوشیدہ تھا۔ وہ ہمیشہ ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ کام کرتا تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے ملازمین بلکہ اس کے بزنس پارٹنرز بھی اس پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ علی کو بچپن سے ہی سکھایا گیا تھا کہ اعتماد اور دیانت داری ہی انسان کو کامیابی کی معراج تک پہنچا سکتی ہیں۔ اور اس نے ہمیشہ اپنے والد کی اس نصیحت کو دل میں بسائے رکھا تھا۔

علی کا سب سے قریبی دوست دانش تھا۔ دانش اس کا بچپن کا ساتھی تھا، اور دونوں نے اسکول اور کالج کا سفر ایک ساتھ طے کیا تھا۔ بزنس کی دنیا میں بھی دونوں ایک دوسرے کے بہترین ساتھی بنے رہے۔ علی اور دانش کے درمیان گہری دوستی اور اعتماد کا رشتہ تھا، اور علی نے ہمیشہ دانش کو اپنے بزنس کے معاملات میں مکمل بھروسہ دیا۔

وقت کے ساتھ علی کا بزنس اور بھی بڑھتا گیا، اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی پہچان ملنے لگی۔ دانش، جو علی کا بزنس پارٹنر تھا، ہمیشہ علی کے فیصلوں کو سپورٹ کرتا تھا اور بزنس کے معاملات میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ دونوں کی دوستی کو لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، کیونکہ ان کے درمیان ایسا اعتماد تھا جو آج کل کی دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

علی نے ہمیشہ دانش کو اپنے بزنس کے اہم معاملات میں شامل رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ دانش نہ صرف اس کا دوست ہے بلکہ اس کی کامیابی کا ایک اہم ستون بھی ہے۔ دانش بھی بظاہر علی کے ساتھ ایمانداری سے کام کر رہا تھا، لیکن اندر سے وہ حسد اور لالچ کا شکار ہو چکا تھا۔

دانش نے علی کی کامیابی اور دولت کو دیکھ کر دل میں حسد پیدا کر لیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ علی نے اتنی دولت اور شہرت کیسے حاصل کی، جب کہ وہ دونوں ایک ہی مقام سے سفر شروع کر چکے تھے۔ دانش کو یہ محسوس ہونے لگا کہ علی کی کامیابی میں اس کا حصہ کم ہے، اور وہ اس سے زیادہ کا حق دار ہے۔

کچھ مہینوں بعد، علی کو اپنے بزنس کے مالی معاملات میں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں۔ اسے لگنے لگا کہ کمپنی کے فنڈز میں کمی آ رہی ہے، لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے۔ علی نے اپنے اکاؤنٹنٹ سے بات کی، لیکن اسے کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ اس کے دل میں شک پیدا ہونے لگا کہ شاید کمپنی کے اندر کوئی بڑی دھوکہ دہی ہو رہی ہے۔

علی نے دانش سے اس معاملے پر بات کی، اور دانش نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور وہ بے فکر ہو جائے۔ علی نے اپنے دوست پر بھروسہ کیا اور اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی، لیکن اس کا دل ابھی بھی بے چین تھا۔

دانش نے علی کے بھروسے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی کے فنڈز میں ہیر پھیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ علی کی غیر موجودگی میں کمپنی کے مالی معاملات میں چھیڑ چھاڑ کرتا اور فنڈز کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرتا رہا۔ علی نے دانش پر مکمل اعتماد کیا ہوا تھا، اس لیے اس نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ دانش اس کے ساتھ دھوکہ کر سکتا ہے۔

کچھ مہینے گزرنے کے بعد، علی کو کمپنی کے مالی معاملات میں بڑی بے ضابطگیاں نظر آنے لگیں۔ کمپنی کے اکاؤنٹس میں بڑی رقم غائب ہونے لگی اور علی کو شدید تشویش ہونے لگی۔ اس نے اس بار مزید تفصیلی تحقیقات کا فیصلہ کیا اور ایک انڈیپینڈنٹ آڈیٹر کو کمپنی کے اکاؤنٹس کا جائزہ لینے کے لیے بلایا۔

آڈیٹرز نے علی کو بتایا کہ کمپنی کے فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبرد کی گئی ہے، اور یہ کام کسی اندرونی شخص نے کیا ہے۔ علی یہ سن کر دنگ رہ گیا۔ وہ اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی اپنی کمپنی میں اتنی بڑی دھوکہ دہی ہو رہی ہے۔ جب آڈیٹرز نے مزید تحقیقات کیں تو علی کے سامنے ایک ایسی حقیقت آئی جسے وہ کبھی قبول نہیں کر سکتا تھا۔

آڈیٹرز کی رپورٹ میں واضح طور پر دانش کا نام آیا۔ علی کے لیے یہ ایک ناقابل یقین بات تھی۔ اس کا قریبی دوست، جس پر وہ اندھا اعتماد کرتا تھا، اس کے ساتھ یہ دھوکہ کیسے کر سکتا تھا؟ علی کے دل میں جذبات کا طوفان اٹھا۔ وہ اپنے دوست کے ہاتھوں اتنا بڑا دھوکہ کھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔

علی نے فوراً دانش سے ملاقات کی اور اس سے سوالات کیے۔ دانش نے پہلے تو انکار کیا، لیکن جب علی نے ثبوت سامنے رکھے تو دانش کے پاس کوئی جواب نہ بچا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس نے علی کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور کمپنی کے فنڈز میں ہیر پھیر کی ہے۔ دانش نے اپنی غلطی کو لالچ کا نتیجہ قرار دیا اور معافی مانگنے کی کوشش کی، لیکن علی کے لیے یہ معافی کافی نہیں تھی۔

علی کو احساس ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ اپنے قریبی دوست سے کھایا ہے۔ اسے اس بات کا شدید صدمہ پہنچا کہ جس شخص پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا، اسی نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ علی کو اپنی سادگی اور بھروسے کی قیمت چکانی پڑی۔

دانش کے اعتراف کے بعد علی نے اسے فوراً کمپنی سے نکال دیا اور قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ علی کو اپنی کمپنی کو بچانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی، کیونکہ دانش کی دھوکہ دہی نے کمپنی کو مالی طور پر شدید نقصان پہنچایا تھا۔ علی نے اپنی ساکھ اور اعتماد کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے دن رات محنت کی۔

علی کی زندگی میں دانش کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا تھا، لیکن اس کے دل میں اس دھوکے کا داغ ہمیشہ رہا۔ اسے اب یہ سمجھ آ چکا تھا کہ بزنس کی دنیا میں اعتماد ایک نایاب چیز ہے، اور کسی پر بھی آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنا زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو سکتی ہے۔

علی نے اس تجربے سے سیکھا کہ زندگی میں کامیابی اور تعلقات دونوں بہت نازک ہوتے ہیں۔ دھوکہ دہی اور بے وفائی زندگی کا حصہ ہیں، اور انہیں قبول کرنا سیکھنا ضروری ہے۔ علی نے اس تجربے سے نہ صرف اپنے بزنس کو دوبارہ کھڑا کیا، بلکہ وہ ایک بہتر انسان بھی بن گیا۔ اب وہ اعتماد کرنے سے پہلے ہر چیز کو اچھی طرح سے پرکھتا تھا۔

علی نے اپنے تجربے کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا شروع کیا اور لوگوں کو اعتماد اور دیانت داری کی اہمیت سکھانے لگا۔ اس نے سیکھا کہ ہر رشتہ مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہیے، اور اگر کسی میں ذرا بھی شک ہو، تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں اعتماد اور دھوکہ دہی کے درمیان باریک لکیر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ علی حسن کی زندگی کا یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بزنس اور دوستی دونوں میں اعتماد کی اہمیت کتنی زیادہ ہے، لیکن یہ اعتماد کیسے آسانی سے ٹوٹ سکتا ہے جب سامنے والا شخص لالچ کا شکار ہو جائے۔ اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک کامیاب بزنس مین کو اپنے قریبی دوست سے دھوکہ ملتا ہے، اور وہ اس دھوکے سے سیکھ کر اپنی زندگی کو ایک نئے سرے سے شروع کرتا ہے۔

Advertisement

Yateem Darakht Urdu Novel

0

(Yateem Darakht Urdu Novel) یتیم درخت اردو ناول

گاوں کے کنارے پر ایک پرانا درخت کھڑا تھا، جسے ہر کوئی یتیم درخت کہتا تھا۔ وہ درخت قدیم تھا، اس کی شاخیں خشک اور بے رونق ہو چکی تھیں۔ جب گاوں کے بچے دوپہر میں کھیلنے کے لیے باہر نکلتے، تو اس درخت کے پاس سے گزرتے وقت سر جھکا لیتے تھے جیسے وہ ایک ناپسندیدہ وجود ہو۔

گاوں کے بوڑھے افراد اس درخت کے بارے میں کئی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں یہ درخت خوبصورت اور سرسبز تھا۔ اس کے سائے میں لوگ بیٹھ کر کہانیاں سنتے تھے، جانور اس کے نیچے آرام کرتے تھے، اور پرندے اس کی شاخوں میں گھر بناتے تھے۔ لیکن سالوں کے ساتھ، وقت کی گرد نے اس درخت کو ویران کر دیا۔

گاوں میں ایک لڑکا تھا، جس کا نام حسن تھا۔ حسن کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اور وہ اپنے چچا کے گھر رہتا تھا۔ حسن بھی گاوں کے باقی بچوں کی طرح اس درخت سے دور رہتا تھا، لیکن ایک دن وہ درخت کے قریب جانے کا فیصلہ کر بیٹھا۔

اس دن آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، اور ہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگی تھیں۔ حسن اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا تھا اور گاوں کے باقی بچے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہ درخت کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ درخت کا تنہ موٹا تھا، اور اس کی چھال جگہ جگہ سے اتر چکی تھی۔ درخت کی شاخوں پر کوئی پتہ نہیں تھا، جیسے زندگی کا ہر نشان اس سے چھین لیا گیا ہو۔

حسن کو درخت کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا۔ اس نے اپنی ہتھیلی سے درخت کے تنہ کو چھوا اور دل میں ایک عجیب سا احساس ہوا، جیسے وہ درخت بھی تنہا ہو۔ اس لمحے حسن کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ اور درخت ایک جیسے ہیں—یتیم اور دنیا سے الگ تھلگ۔ حسن نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اس درخت کا خیال رکھے گا اور اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔

اگلے دن، حسن نے ایک بالٹی میں پانی بھرا اور درخت کے پاس جا کر اسے سیراب کرنے لگا۔ گاوں کے لوگ حیرت سے دیکھتے کہ حسن روزانہ اس خشک درخت کو پانی دینے جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کا مذاق اڑاتے، تو کچھ اسے پاگل سمجھتے تھے۔ لیکن حسن کے دل میں امید کا بیج بویا جا چکا تھا، اور وہ اس امید کو پروان چڑھانے میں مصروف تھا۔

ہفتے اور مہینے گزر گئے۔ حسن روزانہ درخت کو پانی دیتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا۔ درخت کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی، لیکن حسن ہار ماننے والا نہیں تھا۔ ایک دن، جب بہار کا موسم آیا، تو حسن نے درخت کی ایک شاخ پر ایک ننھا سا سبز پتا دیکھا۔ وہ پتا جیسے حسن کے دل میں ایک نئی زندگی کی نوید لے کر آیا تھا۔

یہ چھوٹا سا پتا حسن کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس نے گاوں والوں کو دکھایا، لیکن زیادہ تر لوگوں نے اس کی باتوں کو اہمیت نہ دی۔ وہ اب بھی اسے اس کوشش میں ناکام سمجھتے تھے۔ لیکن حسن کا عزم مضبوط تھا، اور وہ ہر روز درخت کے پاس جا کر اس کی دیکھ بھال کرتا۔

وقت گزرتا گیا، اور آہستہ آہستہ درخت پر اور پتے اگنے لگے۔ وہ درخت جو کبھی مکمل طور پر ویران تھا، اب دوبارہ سبز ہونے لگا تھا۔ گاوں کے لوگ اس تبدیلی کو دیکھ کر حیران تھے۔ وہ درخت جسے وہ بے جان سمجھتے تھے، دوبارہ زندہ ہو رہا تھا۔ حسن کی محنت اور لگن رنگ لانے لگی تھی۔

پھر ایک دن، درخت کی شاخوں پر پھول کھلنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حسن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاوں والے بھی اب اس درخت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ جو لوگ پہلے اس کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی تعریف کرنے لگے تھے۔ درخت پر پرندے پھر سے آ کر بیٹھنے لگے، اور گاوں کے بچے اس کے سائے میں کھیلنے لگے۔

حسن کو فخر محسوس ہوا کہ اس نے ایک یتیم درخت کو نئی زندگی دی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ درخت کے دل میں زندگی ابھی باقی تھی، بس اسے ایک موقع دینے کی ضرورت تھی۔ اس درخت کی بحالی نہ صرف حسن کی کامیابی تھی، بلکہ یہ گاوں کے لوگوں کے لیے بھی ایک سبق تھا کہ ہر زندہ شے کو محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی بوسیدہ اور ٹوٹا ہوا کیوں نہ ہو۔

درخت اب دوبارہ اس گاوں کی شان بن چکا تھا، اور لوگ اس کے نیچے بیٹھ کر سکون حاصل کرتے تھے۔ حسن اکثر درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچتا تھا کہ اس نے اپنے یتیم دل کو اس یتیم درخت کے ذریعے کیسے سکون دیا۔ دونوں کی زندگی میں تنہائی، درد اور خاموشی تھی، لیکن ایک دوسرے کی مدد سے انہوں نے زندگی کو دوبارہ پایا تھا۔

سالوں بعد، جب حسن بڑا ہو چکا تھا اور اس کے اپنے بچے تھے، وہ انہیں اس درخت کی کہانی سناتا تھا۔ وہ کہانی جو ایک یتیم لڑکے اور ایک یتیم درخت کی تھی، جو دنیا کے سامنے تو شاید بیکار اور بے حیثیت تھے، مگر ایک دوسرے کی مدد سے انہوں نے اپنی حیثیت اور مقصد کو پہچان لیا تھا۔

یتیم درخت اب نہ صرف گاوں کا ایک اہم حصہ تھا بلکہ حسن کے دل میں بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ اس درخت نے اسے سکھایا تھا کہ محبت، صبر اور محنت سے دنیا کی ہر ویرانی کو خوشحالی میں بدلا جا سکتا ہے۔

Advertisement

Khamosh Chekhen Horror Story

0

(Khamosh Chekhen horror story)”خاموش چیخیں”

مصنف: (محمد شعیب اکرم)


رات کی تاریکی میں خاموشی کا راج تھا۔ شہر کی سڑکیں سنسان اور بے رونق تھیں۔ عائشہ، جو ایک معروف صحافی تھی، اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھی، رات کے اخبار کے لیے ایک اہم رپورٹ تیار کر رہی تھی۔ اچانک، اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ رات کے اس پہر عموماً کوئی اسے فون نہیں کرتا تھا۔

“ہیلو؟” عائشہ نے فون اٹھا کر کہا۔

دوسری طرف سے ایک عجیب سی سرگوشی سنائی دی، “تمہیں ایک ایسی کہانی چاہیے جسے تم کبھی بھول نہ سکو؟ اگر ہمت ہے، تو کل رات گیارہ بجے پرانی لائبریری آؤ۔”

عائشہ نے فوراً فون پر جواب دینے کی کوشش کی، لیکن فون بند ہو چکا تھا۔ وہ حیران ہو گئی، کیونکہ وہ لائبریری جس کا ذکر کیا گیا تھا، شہر کی سب سے پرانی اور ویران لائبریری تھی، جس کے بارے میں لوگ عجیب و غریب کہانیاں سناتے تھے۔ کوئی وہاں جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا، اور اب اس پراسرار فون کال نے عائشہ کی تجسس کو مزید بڑھا دیا۔


اگلی رات، عائشہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور لائبریری جائے گی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن اس کا پیشہ اسے ہمیشہ خطروں کا سامنا کرنے پر اکساتا تھا۔ گیارہ بجتے ہی، عائشہ نے اپنی کار نکالی اور شہر کی ویران گلیوں سے گزرتی ہوئی پرانی لائبریری کے قریب پہنچی۔

لائبریری کی عمارت بہت بڑی اور پرانی تھی۔ اس کی دیواروں پر خزاں کے پتے چمٹے ہوئے تھے، اور دروازے پر زنگ آلود تالا لگا ہوا تھا۔ عائشہ نے گھڑی دیکھی، بالکل گیارہ بج رہے تھے۔ جیسے ہی وہ دروازے کے قریب گئی، دروازہ خود بخود کھل گیا۔

“کون ہے؟” عائشہ نے بلند آواز میں پوچھا، لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ وہ دروازے کے اندر داخل ہوئی۔ اندر داخل ہوتے ہی، اس کے جسم میں ایک سردی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف دھول جمی ہوئی تھی، اور شیلفوں پر پرانی کتابیں تھیں، جن پر مکڑیوں کے جالے تھے۔

اچانک، ایک کتاب شیلف سے گر گئی۔ عائشہ نے چونک کر اس کتاب کو اٹھایا اور دیکھا کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں تھی۔ اس کا سرورق بہت پرانا اور سیاہ تھا، اور اس پر لکھا تھا: “خاموش چیخیں۔” عائشہ نے کتاب کھولی، اور جیسے ہی اس نے پہلا صفحہ پڑھنا شروع کیا، اسے ایسا لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔


عائشہ نے جلدی سے کتاب کے صفحے پلٹے اور ایک عجیب سی کہانی سامنے آئی۔ کتاب میں ان لوگوں کے بارے میں لکھا تھا جو لائبریری میں آئے اور کبھی واپس نہیں گئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے نام، تصاویر، اور واقعات درج تھے، اور ان سب میں ایک بات مشترک تھی: وہ لوگ پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے تھے۔

“یہ کیا ہے؟” عائشہ نے خود سے کہا، لیکن اس کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اچانک، ایک اور آواز آئی۔ وہ پلٹی تو ایک سایہ سا دکھائی دیا جو فوراً غائب ہو گیا۔ عائشہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے، لیکن کیا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں گردش کرنے لگا۔

عائشہ نے کتاب کو اپنی بیگ میں ڈالا اور جلدی سے باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچی، دروازہ بند ہو گیا۔ “یہ کیا ہو رہا ہے؟” عائشہ نے پریشان ہو کر کہا۔ وہ دروازے کو زور زور سے دھکیلنے لگی، لیکن وہ نہ کھلا۔ اب وہ لائبریری کے اندر قید ہو چکی تھی۔


عائشہ نے ہمت نہ ہاری اور لائبریری میں موجود ہر شے کو غور سے دیکھنے لگی۔ ایک گوشے میں ایک قدیم میز پر ایک اور کتاب رکھی ہوئی تھی، جو پچھلی کتاب سے بھی زیادہ پراسرار لگ رہی تھی۔ وہ میز کے قریب گئی اور کتاب کو کھولا۔ اس کتاب میں ایک پرانی تصویر تھی، جس میں ایک خاندان نظر آ رہا تھا۔ لیکن عائشہ کو حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس خاندان کی تصویر کے نیچے لکھا تھا: “یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لائبریری نے ہمیشہ کے لیے قید کر لیا۔”

کتاب میں لکھا تھا کہ یہ لائبریری کسی زمانے میں ایک بدنام جادوگر کی ملکیت تھی جو اپنے دشمنوں کو یہاں قید کرتا تھا۔ لائبریری کی عمارت میں ایک خفیہ تہہ خانہ تھا جہاں ان لوگوں کو رکھا جاتا تھا، اور وہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا تھا۔ لیکن اس کا نام کہیں نہیں تھا، صرف “خاموش چیخیں” کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔

عائشہ کے ذہن میں سوالات جنم لینے لگے: کیا یہ سب سچ ہے؟ کیا یہ صرف ایک کہانی ہے یا واقعی میں لائبریری میں کچھ پراسرار ہو رہا ہے؟ وہ جانتی تھی کہ اسے اس کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔


عائشہ نے کتاب میں دی گئی ہدایات کے مطابق لائبریری کے تہہ خانے کی تلاش شروع کر دی۔ اسے ایک پرانا لکڑی کا دروازہ ملا، جس کے پیچھے سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تجسس اس کے خوف پر غالب آ گیا۔

سیڑھیاں بہت پرانی اور کمزور تھیں، ہر قدم پر ایک آواز پیدا ہوتی تھی جیسے کسی کو خبردار کر رہی ہو۔ تہہ خانے میں پہنچتے ہی، ایک عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ چاروں طرف اندھیرا تھا، لیکن عائشہ نے اپنی ٹارچ جلائی اور آگے بڑھنے لگی۔

اچانک، اس کے سامنے ایک دروازہ آیا جس پر زنگ آلود تالہ لگا ہوا تھا۔ تالے کے اوپر ایک پرانا نشان بنا ہوا تھا، جو کسی پرانے زمانے کے جادوئی نشان سے مشابہت رکھتا تھا۔ عائشہ نے تالے کو کھولنے کی کوشش کی، لیکن تالہ بہت مضبوط تھا۔

پھر، اچانک، اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ مڑی تو وہاں کوئی نہیں تھا، لیکن اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں کوئی نہ کوئی پراسرار چیز ضرور ہے۔


عائشہ نے ہمت کر کے دروازے کے ارد گرد موجود کاغذات اور چیزوں کو دیکھنا شروع کیا۔ اسے ایک چھوٹا سا پرانا چابی ملا جو شاید اسی دروازے کا تھا۔ اس نے تالہ کھولا اور دروازہ دھیرے سے کھولا۔ اندر کا منظر خوفناک تھا۔ تہہ خانے میں بہت ساری پرانی زنجیریں، جالے، اور کچھ انسانی باقیات تھیں۔

یہ منظر دیکھ کر عائشہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اسے سمجھ میں آگیا کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں لوگوں کو قید کیا جاتا تھا اور کبھی واپس نہیں آنے دیا جاتا تھا۔ وہ جلدی سے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن پھر اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔

“کیا تم بھی یہاں قید ہونا چاہتی ہو؟”
عائشہ نے گھبرا کر دیکھا تو ایک عورت کا سایہ نظر آیا۔ وہ عورت کوئی اور نہیں، بلکہ وہی جادوگر کی بیوی تھی، جس کی تصویر اس نے اوپر دیکھی تھی۔ اس عورت کی آنکھوں میں غصہ اور نفرت تھی، جیسے وہ کسی سے بدلہ لینا چاہتی ہو۔


عائشہ نے اپنی پوری طاقت سے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن وہ عورت اس کے پیچھے تھی۔ تہہ خانے کی دیواریں لرزنے لگیں اور عائشہ کے پیروں کے نیچے زمین ہلنے لگی۔ وہ دروازے کی طرف بھاگتی رہی، لیکن ہر طرف سے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔

“تم یہاں سے بچ کر نہیں جا سکتی!” آوازیں گونج رہی تھیں۔

عائشہ نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار تہہ خانے سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی وہ اوپر پہنچی، لائبریری کا دروازہ خود بخود کھل گیا، اور وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ باہر کی ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا تو اسے احساس ہوا کہ وہ بچ گئی ہے۔

عائشہ نے جلدی سے لائبریری سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف دوڑ لگائی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اب بھی تیز تھیں، اور اس کے جسم میں خوف کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھ کر گہری سانس لی، لیکن اس کا ذہن اب بھی لائبریری میں گزرے واقعات کی گرفت میں تھا۔

وہ جانتی تھی کہ جو کچھ بھی لائبریری میں ہوا تھا، وہ کوئی خواب یا خیالی بات نہیں تھی۔ وہ حقیقت تھی، اور وہ حقیقت نہ صرف خوفناک تھی بلکہ غیر معمولی بھی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ لائبریری میں کچھ ایسا چھپا ہوا ہے جس کا تعلق صرف پرانی کہانیوں سے نہیں بلکہ شہر کی ایک پوشیدہ تاریخ سے ہے۔

عائشہ نے جلدی سے اپنی گاڑی کا انجن اسٹارٹ کیا اور اپنے اخبار کے دفتر کی طرف روانہ ہوئی۔ اسے یہ کہانی دنیا کے سامنے لانی تھی، تاکہ لوگ جان سکیں کہ اس لائبریری کے پیچھے چھپی سچائی کیا ہے۔

اگلے دن، جب عائشہ اپنے دفتر پہنچی، تو اس نے فوراً اپنی تحقیقات شروع کیں۔ اس نے لائبریری کے بارے میں ہر ممکنہ دستاویز، اخبار کی پرانی خبریں اور لائبریری کے مالکین کی تفصیلات جمع کیں۔ لیکن جو معلومات اسے ملی، وہ مزید حیران کن تھی۔

لائبریری کا اصل مالک ایک مشہور و معروف آدمی تھا، جس کا نام ڈاکٹر رشید تھا۔ ڈاکٹر رشید نہ صرف ایک تاریخ دان تھا بلکہ اس کا تعلق پراسرار علوم اور جادوگری سے بھی تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک ایسی کتاب کی تلاش میں تھا جس میں جادوئی طاقتیں چھپی ہوئی تھیں، اور وہ لائبریری کو اپنے تجربات کے لیے استعمال کرتا تھا۔

عائشہ نے غور کیا کہ ڈاکٹر رشید کی موت بھی ایک پراسرار حادثے میں ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے لائبریری بند ہو چکی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ ڈاکٹر رشید کی روح ابھی بھی لائبریری میں بھٹک رہی ہے، اور جو کوئی بھی وہاں جاتا ہے، واپس نہیں آتا۔

عائشہ کو اب یقین ہو چکا تھا کہ وہ جس سایے کو تہہ خانے میں دیکھ چکی تھی، وہ ڈاکٹر رشید کی روح تھی، جو اپنے راز کو محفوظ رکھنے کے لیے لائبریری میں رہتی تھی۔

عائشہ کے دل میں خوف کے باوجود، اس کا صحافتی تجسس اسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ لائبریری میں جائے اور اس راز کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس نے اپنی رپورٹ کو مکمل کرنے کے لیے لائبریری کے پراسرار راز کو جاننا ضروری سمجھا۔

رات کا وقت دوبارہ چن لیا گیا۔ عائشہ نے اس بار اپنے ساتھ اپنے دوست اور فوٹوگرافر، حسان کو بھی لے لیا۔ وہ دونوں مل کر لائبریری پہنچے۔ اس بار وہ زیادہ تیار تھے، اور ان کے پاس ضروری سامان اور کیمرے تھے تاکہ وہ ہر لمحے کو دستاویز کر سکیں۔

“تمہیں یقین ہے کہ ہم یہاں دوبارہ آ رہے ہیں؟” حسان نے دبے دبے لہجے میں پوچھا۔

“ہاں، ہمیں یہ راز دنیا کو بتانا ہے۔” عائشہ نے پختہ لہجے میں جواب دیا۔

دونوں نے لائبریری کے اندر قدم رکھا۔ اندر کا منظر اب بھی وہی تھا—پرانے جالے، دھول، اور ایک عجیب سی خاموشی جو ہوا میں لٹکی ہوئی تھی۔

عائشہ اور حسان دوبارہ اسی تہہ خانے کی طرف بڑھے، جہاں عائشہ کو پہلے تالہ بند دروازہ ملا تھا۔ اس بار، عائشہ کے ہاتھ میں وہی چابی تھی جو اس نے پچھلی بار تہہ خانے سے لی تھی۔

“یہ دروازہ وہی ہے۔” عائشہ نے آہستہ سے کہا اور چابی کو تالے میں ڈال کر کھولا۔

دروازہ کھلتے ہی، ایک اور پراسرار راہداری ظاہر ہوئی۔ اس راہداری کے آخر میں ایک اور کمرہ تھا، جس کے دروازے پر ایک پرانا، دھندلا ہوا نشان تھا۔ وہ دونوں آہستہ سے آگے بڑھے اور دروازہ کھولا۔

کمرے کے اندر کا منظر حیرت انگیز تھا۔ یہ کمرہ تہہ خانے کی دیگر جگہوں سے مختلف تھا۔ یہاں ایک بڑی میز تھی جس پر ایک قدیم کتاب رکھی ہوئی تھی، اور کتاب کے ارد گرد مختلف اوزار اور جادوئی علامات بنی ہوئی تھیں۔

“یہ وہ کتاب ہو سکتی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر رشید کی کہانیوں میں تھا۔” عائشہ نے کتاب کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

“لیکن کیا یہ خطرناک نہیں ہو سکتی؟” حسان نے تشویش کے ساتھ پوچھا۔

عائشہ نے ہلکے ہاتھ سے کتاب کو اٹھایا اور اس کا پہلا صفحہ کھولا۔ کتاب میں مختلف علامات اور جادوئی اشعار لکھے ہوئے تھے۔ ہر صفحہ ایک نئی کہانی سناتا تھا، اور ہر کہانی میں ایک نیا راز چھپا ہوا تھا۔

جیسے ہی عائشہ نے کتاب کے مزید صفحات پلٹے، اچانک کمرے کی فضا بدل گئی۔ ہوا بھاری ہو گئی، اور دیواروں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں—جیسے کوئی چیخ رہا ہو، مگر اس کی آواز دنیا میں سنائی نہ دیتی ہو۔

“یہ کیا ہو رہا ہے؟” حسان نے گھبرا کر پوچھا۔

عائشہ نے جلدی سے کتاب بند کی، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ کمرے کے دروازے خود بخود بند ہو گئے، اور ایک پراسرار سایہ پھر سے ظاہر ہوا۔ یہ سایہ وہی تھا جو عائشہ نے پہلے تہہ خانے میں دیکھا تھا۔

“تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟” سایے کی آواز گونجی۔

عائشہ اور حسان نے خوف سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، لیکن وہ کمرے کے اندر قید ہو چکے تھے۔ وہ سایہ آہستہ آہستہ ان کے قریب آ رہا تھا، اور ہر قدم کے ساتھ اس کی شکل واضح ہوتی جا رہی تھی۔

“تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔” وہ سایہ بولا۔

عائشہ نے جلدی سے سوچا کہ وہ کیسے یہاں سے بچ سکتے ہیں۔ اس نے یاد کیا کہ کتاب میں جادوئی اشعار تھے جنہیں پڑھ کر شاید وہ سایے کو روک سکیں۔ وہ جلدی سے کتاب کے آخری صفحات پلٹنے لگی اور ایک خاص دعا پڑھنے لگی۔

“یہ کیا کر رہی ہو؟” سایے نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔

لیکن عائشہ نے ہار نہیں مانی اور دعائیں پڑھتی رہی۔ جیسے جیسے وہ دعا پڑھتی جا رہی تھی، سایے کی طاقت کمزور ہوتی جا رہی تھی، اور آخر کار، وہ سایہ دھیرے دھیرے غائب ہو گیا۔

دروازے کھل گئے، اور ہوا دوبارہ معمول پر آ گئی۔

عائشہ اور حسان جلدی سے لائبریری سے باہر نکل آئے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سانس لی۔

“یہ کوئی عام کہانی نہیں ہے۔” عائشہ نے کہا۔ “یہ سچ ہے، اور ہمیں اس سچائی کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔”

حسان نے اثبات میں سر ہلایا۔

اگلے دن، عائشہ نے اپنی رپورٹ کو مکمل کیا اور لائبریری کے پراسرار راز کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ شہر بھر میں اس کہانی کی دھوم مچ گئی، اور لوگ لائبریری کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب ہو گئے۔

لیکن عائشہ جانتی تھی کہ یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کیونکہ خاموش چیخیں اب بھی کہیں نہ کہیں سنائی دے رہی تھیں، اور شاید وہ کسی دن دوبارہ ظاہر ہوں۔


ختم شد

Advertisement

Andhera Raaz Horror Urdu Novel

0
Horror Urdu Novel

(Andhera Raaz Horror Urdu Novel) اندھیرا راز اردو ناول

“اندھیرا راز”

مصنف: (محمد شعیب اکرم)

صبح کی دھند میں لپٹی ایک سرد اور خاموش فضا تھی۔ شہر کے کونے میں ایک پرانی اور بوسیدہ عمارت کھڑی تھی جس کا نام “رستم ہاؤس” تھا۔ یہ عمارت کسی زمانے میں شہر کی شان ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ ویران اور بھوت بنگلہ بن چکی تھی۔ ہر کوئی اس کے قریب سے گزرتے ہوئے تھوڑا لرزتا تھا، جیسے اس میں کوئی چھپا ہوا راز ہو۔

علی، ایک نوجوان اور پرجوش صحافی، شہر کے ایک مشہور اخبار میں کام کرتا تھا۔ ایک دن، جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا، اس کے ٹیبل پر ایک نامعلوم خط آ گرا۔ خط پر کوئی نام نہ تھا، صرف یہ لکھا تھا: “رستم ہاؤس کے اندر ایک ایسا راز ہے جو تمہاری زندگی بدل دے گا۔ اگر تمہاری ہمت ہے تو کل رات وہاں آؤ۔”

علی نے خط کو غور سے دیکھا۔ رستم ہاؤس؟ یہ تو وہی جگہ تھی جس کے بارے میں شہر بھر میں خوفناک کہانیاں مشہور تھیں۔ لیکن علی کو ہمیشہ سے پراسرار اور غیر معمولی کہانیوں میں دلچسپی رہی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس دعوت کو قبول کرے گا اور کل رات وہاں جائے گا۔

رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور علی نے اپنا سفری بیگ تیار کر لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رستم ہاؤس کے بارے میں لوگ بہت سی باتیں کرتے ہیں، لیکن وہ ایک حقیقت پسند شخص تھا۔ اس کے خیال میں یہ سب محض افسانے تھے۔

وہ سڑکوں پر خاموشی سے چلتا ہوا رستم ہاؤس کے قریب پہنچ گیا۔ عمارت کی ویرانی نے اسے تھوڑا پریشان کیا، لیکن وہ ڈرتا نہیں تھا۔ اس نے جیب سے اپنی ٹارچ نکالی اور قدم اندر کی طرف بڑھایا۔ دروازہ دھیرے سے کھلا، جیسے کسی نے اس کا انتظار کیا ہو۔

اندر داخل ہوتے ہی اسے ایک عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ جگہ جگہ مکڑیوں کے جالے تھے، اور فرش پر دھول جمع تھی۔ علی نے اپنی ٹارچ کی روشنی چاروں طرف گھمائی۔ عمارت کی خاموشی بہت گہری تھی، جیسے ہوا بھی یہاں رک گئی ہو۔ لیکن پھر، ایک آواز آئی۔

“تم آگئے؟”
علی چونک گیا۔ یہ آواز کسی عورت کی تھی، لیکن اسے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ علی نے فوراً اپنی ٹارچ کی روشنی آگے بڑھائی، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، لیکن وہ اپنے قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہاں آیا ہے تو اسے راز کا پتا لگانا ہے۔

علی جیسے ہی آگے بڑھا، اسے ایک پرانی سیڑھی نظر آئی جو اوپر کے کمروں کی طرف جاتی تھی۔ وہ محتاط انداز میں سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ اچانک، اس کے پیچھے ایک سایہ سا ہلکا سا حرکت کرتا دکھائی دیا۔ وہ فوراً مڑا، لیکن کوئی نہیں تھا۔

اوپر پہنچتے ہی اس نے ایک کمرے کا دروازہ دیکھا جو نیم کھلا ہوا تھا۔ اندر سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔ علی نے دھیرے سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرہ بہت پرانا تھا، لیکن وہاں ایک چیز خاص تھی: دیوار پر ایک عجیب سا نقشہ بنا ہوا تھا۔

علی نے دیوار کے قریب جا کر نقشہ کو غور سے دیکھا۔ یہ کوئی عام نقشہ نہیں تھا۔ اس میں کچھ خفیہ نشانات تھے جو کسی جگہ کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ لیکن علی کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا۔ جیسے ہی وہ نقشہ کے بارے میں سوچ رہا تھا، کمرے میں ایک سرد ہوا چلنے لگی، اور دروازہ زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔

“یہ کیا ہو رہا ہے؟” علی نے اپنے آپ سے کہا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا، لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھا۔

علی نے دیوار کے نقشے کو اپنی نوٹ بک میں نقل کر لیا اور واپس نیچے جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جب وہ واپس سیڑھیوں کی طرف جانے لگا، اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ رکا اور پیچھے دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے اپنی سانس کو قابو میں رکھا اور نیچے جانے لگا۔

عمارت کے نیچے پہنچتے ہی اسے وہی آواز دوبارہ سنائی دی، “تمہیں کیا ملا؟”
علی نے فوراً پوچھا، “تم کون ہو؟ سامنے آؤ!”
لیکن جواب میں صرف خاموشی تھی۔ علی نے دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے زور زور سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔

علی کے ذہن میں خوف کے سائے چھانے لگے، لیکن پھر اسے ایک اور خیال آیا۔ شاید یہ کوئی مذاق تھا؟ شاید کوئی اسے ڈرا رہا تھا؟ لیکن یہ سب کچھ اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ علی کو شک ہونے لگا۔

علی نے آخر کار فیصلہ کیا کہ اسے اس عمارت میں چھپے ہوئے راز کو مکمل طور پر جانچنا ہوگا۔ وہ واپس اوپر کی طرف گیا اور دیوار کے نقشے کو دوبارہ دیکھا۔ اس بار، وہ نشانات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہر نشان کسی نہ کسی مقام کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

پھر، اچانک، علی کو دیوار کے نیچے ایک چھوٹا سا خفیہ دروازہ دکھائی دیا۔ دروازہ بہت چھوٹا تھا اور اس پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ علی نے دروازہ کھولا اور اندر جھانکا۔ وہاں ایک چھوٹا سا صندوق رکھا تھا۔ صندوق پر ایک پرانا تالہ لگا تھا۔

علی نے جلدی سے صندوق کو کھولا اور اس کے اندر ایک پرانی کتاب ملی۔ کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا: “یہ وہ راز ہے جس کی تمہیں تلاش تھی۔ لیکن اگر تم اسے جاننا چاہتے ہو، تو اس کے بعد پیچھے مڑ کر مت دیکھنا!”

علی نے کتاب کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔ ہر صفحے پر لکھا تھا کہ کیسے رستم ہاؤس کے مالک نے اپنی دولت اور طاقت کو حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں قتل کیا۔ اس کے جرائم کو چھپانے کے لئے اس نے اپنے محل کو ایک قید خانہ بنا دیا تھا، جہاں وہ معصوم لوگوں کو قید کر کے ان سے راز نکلواتا اور پھر ان کی جان لے لیتا۔

علی کے ذہن میں دھماکہ ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس راز کو جاننے کا مطلب خطرے میں پڑنا تھا۔ لیکن اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ وہ جلدی سے عمارت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن ہر دروازہ بند ہو چکا تھا۔

اس نے ایک آخری بار پیچھے دیکھا، اور وہاں وہی سایہ دوبارہ نظر آیا۔ لیکن اس بار، وہ سایہ واضح تھا۔ یہ وہی رستم تھا، جس کے بارے میں کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اس کی آنکھیں خونخوار تھیں اور اس کا چہرہ بدترین خوف کا عکاس تھا۔

علی جانتا تھا کہ اب اسے یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے پاس ایک آخری امید تھی: اس نے کتاب کو زور سے دیوار پر مارا، اور اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ عمارت ہلنے لگی، اور علی نے بھاگ کر دروازے کو کھولنے کی کوشش کی۔


عمارت کا ہر حصہ گرنے لگا۔ علی نے اپنی پوری طاقت سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن رستم کا سایہ اس کے پیچھے تھا۔ وہ دروازے کی طرف بھاگا، لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔
پھر اچانک، ایک روشنی کا بلب چمکا اور علی نے اپنے آپ کو باہر پایا۔ وہ سانس لیتے ہوئے زمین پر گر گیا۔ رستم ہاؤس ایک لمحے میں منہدم ہو چکا تھا، اور وہ پراسرار عمارت ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی تھی۔

علی نے جلدی سے اپنی نوٹ بک میں اس راز کو لکھا اور فیصلہ کیا کہ یہ کہانی دنیا کو بتائی جائے گی، تاکہ لوگ جان سکیں کہ اندھیرے میں چھپے راز کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔


ختم شد

Advertisement

Sone ka anda

0
sone ka anda

(Sone ka anda) سونے کا انڈہ

(Sone ka anda) سونے کا انڈہ

ایک دن کی بات ہے کہ ایک غریب کسان اپنے کھیت میں سخت محنت کر رہا تھا۔ اس کی زندگی کا ہر دن بہت مشکل اور مشقت بھرا تھا، لیکن وہ صبر اور قناعت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا، اور ان کی زندگی بڑی سادگی میں بسر ہو رہی تھی۔

ایک دن، جب کسان اپنے کھیت میں بیج بو رہا تھا، اچانک اس کی نظر ایک عجیب و غریب مرغی پر پڑی۔ یہ مرغی کسی عام مرغی کی طرح نہیں تھی۔ اس کے پروں کی چمک اور اس کی غیر معمولی چال سے کسان حیران رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ کوئی معجزاتی مرغی ہے، اور اسے گھر لے جانے کا فیصلہ کیا۔

کسان نے مرغی کو گھر لے جا کر اپنی بیوی کو دکھایا، جس نے بھی حیرانی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں سوچ میں پڑ گئے کہ آخر یہ مرغی کیسی ہے اور اسے کہاں سے آئی ہے؟ وہ حیران اور خوش بھی تھے، لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ مرغی ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدلنے والی ہے۔

اگلی صبح جب کسان مرغی کے ڈربے میں گیا تو اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے دیکھا کہ مرغی نے ایک سونے کا انڈہ دیا ہے! کسان کی آنکھوں میں چمک آ گئی، اور وہ فوراً اپنی بیوی کے پاس گیا اور اسے انڈہ دکھایا۔ دونوں بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ اس ایک انڈے سے ان کی غربت دور ہو جائے گی۔

کسان نے سونے کا انڈہ بازار میں بیچ دیا اور اسے بہت سارے پیسے ملے۔ وہ اپنی قسمت پر نازاں تھا۔ اگلے دن جب وہ دوبارہ مرغی کے ڈربے میں گیا تو ایک اور سونے کا انڈہ وہاں پڑا تھا۔ یہ سلسلہ روزانہ جاری رہا، اور ہر دن ایک نیا سونے کا انڈہ ملتا رہا۔

کچھ ہفتے گزرنے کے بعد، کسان اور اس کی بیوی کی زندگی میں خوشحالی آنے لگی۔ وہ نئے کپڑے، اچھا کھانا اور ہر چیز خریدنے لگے جو پہلے ان کی پہنچ سے دور تھی۔ لیکن جوں جوں ان کی دولت بڑھتی گئی، ان کا لالچ بھی بڑھنے لگا۔

ایک رات، کسان اور اس کی بیوی بیٹھے بات کر رہے تھے کہ کس طرح وہ اور زیادہ امیر ہو سکتے ہیں۔ کسان کی بیوی نے ایک عجیب تجویز پیش کی: “اگر یہ مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دے سکتی ہے، تو ضرور اس کے پیٹ میں اور بھی انڈے ہوں گے۔ کیوں نہ ہم اسے ذبح کر کے سارے انڈے ایک ہی وقت میں نکال لیں؟”

کسان کو پہلے تو یہ بات عجیب لگی، لیکن لالچ اس کے دل میں بھی گھر کر چکا تھا۔ وہ اس تجویز پر غور کرنے لگا اور آخرکار اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ صبح مرغی کو ذبح کرے گا تاکہ سارا سونا ایک ہی دن میں حاصل کر سکے۔

اگلی صبح کسان نے چھری لے کر مرغی کو پکڑ لیا۔ اس کی بیوی نے بھی اس کی مدد کی، اور دونوں نے جلدی جلدی مرغی کو ذبح کر دیا۔ ان کے دلوں میں خوشی اور امید تھی کہ اب ان کے ہاتھ سارا سونا آ جائے گا۔ لیکن جب انہوں نے مرغی کا پیٹ چاک کیا، تو اندر سے کچھ بھی نہ نکلا۔

یہ دیکھ کر کسان اور اس کی بیوی شدید مایوس ہو گئے۔ مرغی کے پیٹ میں کوئی سونے کا انڈہ نہیں تھا، اور وہ صرف ایک عام مرغی ہی نکلی۔ ان کی لالچ نے انہیں اندھا کر دیا تھا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے وہ نعمت ضائع کر دی جو انہیں ہر روز ایک سونے کا انڈہ دے رہی تھی۔

کسان اور اس کی بیوی اب اپنی حماقت پر پچھتا رہے تھے۔ ان کی خوشحالی ختم ہو چکی تھی اور اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ وہ سوچتے رہے کہ اگر انہوں نے لالچ نہ کیا ہوتا اور صبر سے روزانہ ایک انڈہ لیتے رہتے، تو ان کی زندگی کتنی بہتر ہو سکتی تھی۔

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ لالچ انسان کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ صبر اور قناعت ہی انسان کو حقیقی خوشی اور کامیابی عطا کرتے ہیں۔ کسان اور اس کی بیوی کی طرح، اگر ہم بھی صبر سے کام نہ لیں اور فوری فائدے کی خاطر غلط فیصلے کریں، تو ہم بھی اپنی زندگی کی نعمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

یہ سمجھاتی ہے کہ ہمیشہ جلدی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں، ہم اکثر وہ چیزیں کھو بیٹھتے ہیں جو ہمیں دیرپا فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ لالچ کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے، اور کامیابی وہی حاصل کرتا ہے جو صبر، مستقل مزاجی، اور قناعت کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھتا ہے۔

Advertisement

Lalchi deo aur Kisan urdu kahani

0
Lalchi deo aur Kisan urdu kahani

(Lalchi deo aur Kisan urdu kahani) لالچی دیو اور کسان اردو کہانی

ایک کسان اپنے کھیت میں محنت سے کام کر رہا تھا۔ وہ دن رات اپنی فصلوں کی دیکھ بھال کرتا اور اپنی محنت کی کمائی پر خوش تھا، مگر حالات کچھ بہتر نہ ہو رہے تھے۔ اس کے پاس صرف تھوڑی سی زمین تھی، جس پر وہ اپنے خاندان کے لیے غلہ اگاتا تھا۔ ایک دن، وہ جیسے ہی کھیت میں پانی دے رہا تھا، اچانک ایک عجیب آواز سنائی دی۔

کسان نے مڑ کر دیکھا تو سامنے ایک بڑا، خوفناک دیو کھڑا تھا، جس کی آنکھیں سرخ اور چہرہ شدید غصے میں تھا۔ دیو نے گرجدار آواز میں کہا، “میں اس زمین کا مالک ہوں! جو کچھ تمہارے پاس ہے، وہ سب میرا ہے!” دیو کی آواز اتنی گرجدار تھی کہ کسان کے ہاتھوں سے پانی کا گھڑا گر گیا۔

کسان خوف زدہ ہو گیا، لیکن اس نے اپنی عقل کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے دیو کی بات کو نظرانداز کیا تو دیو اسے ختم کر سکتا ہے، لیکن اگر وہ دیو کو چالاکی سے قابو میں کر لے تو شاید بچ نکلے۔

کسان نے کہا، “اے عظیم دیو! یہ زمین تو تمہاری ہی ہے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس زمین کے نیچے ایک بہت بڑا خزانہ دفن ہے۔ میں تمہیں یہ خزانہ دکھا سکتا ہوں، مگر اس کے لیے تمہیں میری مدد کرنی ہوگی۔” دیو، جو کہ لالچ میں ڈوبا ہوا تھا، فوراً تیار ہو گیا اور بولا، “ٹھیک ہے، مجھے وہ خزانہ دکھاؤ!”

کسان نے دیو کو ایک خاص جگہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا، “یہاں کھودو۔ زمین کے نیچے خزانہ چھپا ہوا ہے، لیکن یہ بہت گہرا ہے۔ تمہیں بہت زیادہ طاقت لگانی پڑے گی۔” دیو نے فوراً کھدائی شروع کر دی۔ وہ اتنی تیزی سے کھود رہا تھا کہ مٹی دور دور جا رہی تھی۔

دیو کھودتا رہا اور کسان خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ جب دیو کافی گہرا کھود چکا تو کسان نے موقع غنیمت جانا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ دیو زمین کھودتا رہا، لیکن خزانہ نہیں ملا۔ جیسے ہی دیو کو احساس ہوا کہ کسان نے اسے دھوکہ دیا ہے، وہ غضبناک ہو گیا اور زور زور سے گرجنے لگا۔

دیو نے زمین سے باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن گہرائی میں پھنس چکا تھا۔ کسان کی چالاکی نے اسے دیو سے نجات دلا دی، اور وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت سے بچ نکلا۔

اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ طاقتور ہونا ضروری نہیں، عقل اور ہوشیاری سے بڑی سے بڑی مشکل سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

Advertisement

Kabutar aur chiti ki kahani

0
Kabootar aur chiti ki kahani

(Kabutar aur chiti ki kahani) کبوتر اور چیونٹی کی کہانی

ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک چیونٹی جنگل کے قریب ایک دریا کے کنارے پانی پینے گئی۔ جیسے ہی وہ دریا کے کنارے پہنچی اور پانی پینے لگی، ایک تیز لہر آئی اور اسے بہا کر دریا میں لے گئی۔ چیونٹی بہت چھوٹی تھی اور اسے تیرنا نہیں آتا تھا، اس نے زور زور سے مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔

اتفاق سے درخت کی ایک شاخ پر ایک کبوتر بیٹھا تھا جو چیونٹی کی فریاد سن رہا تھا۔ کبوتر کو چیونٹی پر رحم آیا اور اس نے مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی چونچ سے ایک پتا توڑا اور اسے دریا میں چیونٹی کے قریب گرا دیا۔ چیونٹی نے جلدی سے پتے پر چڑھ کر اپنی جان بچا لی۔ وہ پتا دریا کی لہروں پر بہتے بہتے کنارے تک پہنچ گیا اور چیونٹی محفوظ طور پر کنارے پر اتر گئی۔

چیونٹی نے کبوتر کا شکریہ ادا کیا اور دل میں سوچا کہ وہ کبھی بھی اس احسان کو نہیں بھولے گی اور جب بھی موقع ملے گا، کبوتر کی مدد کرے گی۔

چند دن بعد، وہی کبوتر ایک درخت پر بیٹھا ہوا تھا اور سورج کی روشنی میں آرام کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک شکاری وہاں آ پہنچا۔ اس نے کبوتر کو دیکھا اور اپنے جال کو تیار کر لیا تاکہ کبوتر کو پکڑ سکے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے درخت کے قریب آیا اور جیسے ہی جال کو پھینکنے والا تھا، چیونٹی نے یہ منظر دیکھ لیا۔

چیونٹی کو فوراً یاد آیا کہ کبوتر نے اس کی جان بچائی تھی، اور اب اس کی باری تھی کہ وہ کبوتر کی مدد کرے۔ چیونٹی جلدی سے شکاری کے پیر تک پہنچی اور اسے زور سے کاٹ لیا۔ شکاری درد کے مارے چیخنے لگا اور اس کی توجہ کبوتر سے ہٹ گئی۔ کبوتر نے فوراً خطرے کو بھانپ لیا اور فوراً درخت سے اڑ گیا۔ اس طرح چیونٹی نے اپنی چھوٹی سی بہادری سے کبوتر کی جان بچا لی۔

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہیے اور کبھی بھی کسی کے احسان کو نہیں بھولنا چاہیے۔ احسان کا بدلہ ضرور ملتا ہے، چاہے وہ ایک چھوٹا سا عمل ہی کیوں نہ ہو۔ چیونٹی اور کبوتر کی اس خوبصورت دوستی میں یہی سبق پوشیدہ ہے کہ چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں ہوتی، بلکہ نیت اور دل کی سچائی سب سے اہم ہوتی ہے۔

Advertisement

Qissa chahar darvesh

0

(qissa chahar darvesh) قصة چار درویش

ایک زمانے میں چار درویش تھے جو دنیا کی بے وفائی سے دور رہ کر اپنی روحانی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کا نام تھا: شمس، قمر، ماہتاب، اور گلزار۔ یہ سب ایک دوسرے کے دوست تھے اور ہر روز مختلف جگہوں پر سیر و سیاحت کرتے، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے۔

ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک جنگل میں جا کر کچھ دن گزاریں گے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک خوبصورت جھیل دیکھی، جہاں پرندے چہچہاتے اور درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر عبادت کرتے۔ ان سب نے مل کر دعا کی اور اللہ کا ذکر کیا۔

جنگل میں رہتے ہوئے، ایک روز انہوں نے دیکھا کہ ایک بادشاہ کا قافلہ ان کے قریب آیا۔ بادشاہ نے اپنی فوج کے ساتھ جھیل کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ درویشوں نے بادشاہ کی شان و شوکت کو دیکھ کر سوچا کہ شاید انہیں بادشاہ سے کچھ مدد ملے گی۔ وہ اس کے پاس گئے اور اپنی روحانی حالت بیان کی۔

بادشاہ نے درویشوں کی باتیں سنیں اور انہیں اپنے دربار میں بلایا۔ درویشوں نے اپنی سادگی اور عاجزی کے ساتھ بادشاہ کے سامنے آ کر اپنی بات رکھی۔ بادشاہ نے ان کی نیکیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ ان کی مدد کرے گا۔

بادشاہ نے درویشوں کو اپنی دولت میں سے کچھ دیا اور ان کے لیے ایک خوبصورت مکان بنانے کا حکم دیا۔ درویشوں نے بادشاہ کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا اور اسے نصیحت کی کہ دنیا کی دولت کبھی بھی روح کی سکون نہیں دے سکتی۔

اس کے بعد، درویش جنگل میں واپس آ گئے۔ وہ اپنے نئے مکان میں رہنے لگے لیکن ان کے دلوں میں دنیا کی محبت کی چنگاری نہیں بجھی۔ ایک دن، درویشوں نے ایک خواب دیکھا جس میں ایک بزرگ نے انہیں بتایا کہ انہیں اپنی روحانی زندگی کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔

یہ خواب سن کر درویشوں نے اپنی سادگی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کی نعمتوں کو چھوڑ کر بھیک مانگنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے اپنے نئے مکان کو چھوڑ دیا اور شہر کی طرف روانہ ہوئے۔

شہر پہنچ کر، وہ مختلف لوگوں کے پاس گئے اور بھیک مانگنے لگے۔ کچھ لوگ ان کی مدد کرتے، جبکہ کچھ نے ان کی حالت پر ہنسی اڑائی۔ درویشوں نے ان تمام حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ وہ سمجھ گئے کہ دنیا کی نظر میں کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔

کچھ دنوں بعد، درویشوں کو ایک بوڑھے شخص کی طرف سے دعوت ملی، جو ایک درویش کی طرح زندگی بسر کر رہا تھا۔ بوڑھے نے انہیں اپنے گھر بلایا اور ان کی مدد کی۔ انہوں نے بوڑھے کی مہمان نوازی کا شکر ادا کیا اور اس کے ساتھ مل کر دعا کی۔

وقت گزرتا گیا اور درویشوں نے اپنی روحانی حالت کو مزید گہرا کیا۔ وہ لوگوں کے دلوں میں محبت اور امن پھیلانے لگے۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کی سب سے بڑی دولت ان کی روحانی قوت اور لوگوں کے دلوں میں محبت ہے۔

آخر کار، درویشوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت میں صرف کریں گے۔ انہوں نے لوگوں کی مدد کرنا شروع کی، ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی، اور علم کی روشنی پھیلانے لگے۔

یوں، چار درویشوں کی کہانی نہ صرف ایک روحانی سفر کی داستان ہے، بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد، حقیقی خوشی اور سکون کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ دولت اور شان و شوکت انسان کی روح کی تسکین نہیں کر سکتے، بلکہ محبت، علم، اور خدمت ہی اصل دولت ہیں۔

درویشوں کی یہ کہانی آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقی خوشی صرف دل کی سکون میں ہے، جو صرف روحانی زندگی اور لوگوں کی خدمت میں ملتا ہے

Advertisement

Shikari aur kabootar ki kahani in urdu

1

(shikari aur kabootar ki kahani in urdu) شکاری اور کبوتر کی کہانی

ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک گھنے جنگل میں ایک شکاری رہتا تھا۔ وہ ہر روز شکار کی تلاش میں جنگل کے دور دراز علاقوں میں جاتا اور چھوٹے بڑے جانوروں اور پرندوں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک مضبوط جال تھا جس کی مدد سے وہ پرندوں کو آسانی سے پکڑ لیتا تھا۔

ایک دن شکاری نے سوچا کہ کیوں نہ کسی ایسی جگہ پر جال بچھایا جائے جہاں زیادہ پرندے آتے ہوں۔ کافی سوچ و بچار کے بعد وہ جنگل کے ایک خوبصورت میدان میں پہنچا، جہاں ہرے بھرے درخت اور گھاس تھی اور بہت سے پرندے آیا کرتے تھے۔ شکاری نے بڑی مہارت سے وہاں جال بچھایا اور اس کے اوپر تھوڑا سا دانہ بکھیر دیا تاکہ پرندے جال میں آ جائیں۔

کچھ دیر بعد، ایک غول کبوتر وہاں سے گزرا۔ ان کبوتروں کا سردار ایک دانا اور تجربہ کار کبوتر تھا، جو ہمیشہ اپنے غول کی حفاظت کرتا تھا۔ کبوتروں نے دانہ دیکھا اور ان میں سے کچھ نے کہا، “یہ جگہ بہت اچھی لگتی ہے، یہاں دانہ ہے، ہم یہاں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔” لیکن سردار کبوتر کو شک ہوا کہ کہیں یہ کوئی فریب نہ ہو، کیونکہ یہ دانہ یہاں پہلے کبھی نہیں تھا۔

سردار کبوتر نے باقی کبوتروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا، “دوستو، یاد رکھو! کوئی چیز بغیر وجہ کے آسانی سے نہیں ملتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دانہ کسی جال کا حصہ ہو، ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔”

لیکن کبوتروں میں سے چند نے سردار کی بات پر دھیان نہیں دیا اور فوراً دانہ چگنے لگے۔ سردار کبوتر نے دوبارہ خبردار کیا، “یہ صحیح فیصلہ نہیں ہے، ہمیں ایک ساتھ ہی یہاں سے جانا چاہیے۔”

اتنی دیر میں وہ کبوتر جو دانہ چگ رہے تھے، جال میں پھنس چکے تھے اور شور مچانے لگے۔ باقی کبوتروں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ شکاری دور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کبوتروں کا پورا غول پھنس جائے گا۔

سردار کبوتر نے بڑی حکمت سے سوچا اور کہا، “ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہم متحد رہیں اور ایک ساتھ اڑنے کی کوشش کریں، تو ہم اس جال کو توڑ سکتے ہیں۔”

پھنسے ہوئے کبوتروں کو سردار کی بات سمجھ آئی۔ انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب کبوتروں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا اور ایک ساتھ زور لگا کر اڑنے کی کوشش کی۔ شکاری نے یہ دیکھا تو وہ بہت حیران ہوا کہ کبوتروں نے اتنی طاقت پیدا کی کہ جال کے ساتھ ہی اوپر اڑنے لگے۔

شکاری نے فوراً ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی، لیکن کبوتروں کی رفتار بہت تیز تھی۔ وہ جال سمیت اونچے درختوں کی طرف اڑتے گئے۔ شکاری بے بس ہو کر ان کا پیچھا کرتا رہا، مگر وہ کبوتروں کو پکڑ نہ سکا۔

کبوتروں نے اپنی منزل ایک بڑے درخت کے نیچے بنائی، جہاں ایک چوہا رہتا تھا جو سردار کبوتر کا پرانا دوست تھا۔ جب کبوتروں نے چوہے کو اپنی پریشانی سنائی تو چوہے نے فوراً اپنے تیز دانتوں سے جال کو کاٹنا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں چوہے نے پورے جال کو کاٹ کر کبوتروں کو آزاد کر دیا۔

سردار کبوتر اور اس کا پورا غول آزاد ہو گیا اور انہوں نے چوہے کا شکریہ ادا کیا۔ سردار نے اپنے غول کو سمجھایا کہ مشکل وقت میں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد ہی کامیابی کا سبب بنتا ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو کوئی بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔

یہ سن کر باقی کبوتر بھی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ آئندہ وہ سردار کی بات سنیں گے اور کبھی بھی لالچ میں آ کر کوئی بھی جلدبازی والا فیصلہ نہیں کریں گے۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اتحاد میں بہت طاقت ہے اور اگر ہم مل کر کسی مسئلے کا سامنا کریں تو ہم ہر مشکل سے نکل سکتے ہیں۔

Advertisement

Pyasa Kauwa

1
pyasa-kauwa

(Pyasa Kauwa) پیاسا کوا

ایک گرم دوپہر کا وقت تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور ہر طرف گرمی کی شدت محسوس ہو رہی تھی۔ زمین تپ رہی تھی اور درختوں کے پتّے گرمی سے مرجھا چکے تھے۔ ایسے میں ایک پیاسا کوا آسمان میں اُڑتے ہوئے پانی کی تلاش میں نکل پڑا۔

Pyasa Kauwa, Thirsty crow

کوا کافی دیر تک اِدھر اُدھر اُڑتا رہا، لیکن اسے کہیں بھی پانی نظر نہ آیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور اس کی پیاس شدید ہو گئی تھی۔ کوے کو دور سے ایک ندی کی آواز سنائی دی، لیکن جب وہ قریب پہنچا تو ندی بالکل خشک ہو چکی تھی۔ کوے کو اب فکر ہونے لگی کہ اگر جلدی سے پانی نہ ملا، تو وہ گرمی کی شدت اور پیاس کی وجہ سے مر جائے گا۔

کوا ہمت نہیں ہارا اور آگے بڑھتا گیا۔ اچانک اسے ایک باغ دکھائی دیا جس کے ایک کونے میں ایک مٹکا رکھا ہوا تھا۔ کوے کو امید ہوئی کہ شاید مٹکے میں پانی ہو۔ وہ تیزی سے اُڑتا ہوا مٹکے کے پاس پہنچا اور اندر جھانکا، لیکن بدقسمتی سے مٹکا تقریباً خالی تھا اور اس میں بہت تھوڑا سا پانی نیچے موجود تھا۔

کوا بہت پریشان ہوا، کیونکہ اس کی چونچ پانی تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا کرے۔ پھر اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی اور اسے زمین پر چھوٹے چھوٹے کنکر دکھائی دیے۔

کوا اُڑ کر نیچے آیا اور ایک ایک کر کے کنکر اپنی چونچ میں اٹھا کر مٹکے میں ڈالنے لگا۔ جب بھی وہ ایک کنکر مٹکے میں ڈالتا، پانی تھوڑا تھوڑا اوپر آتا جاتا۔ کوے نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل کنکر ڈالتا گیا۔

کچھ دیر بعد پانی اتنا اوپر آ گیا کہ کوے کی چونچ اس تک پہنچنے لگی۔ کوے نے خوش ہو کر پانی پیا اور اپنی پیاس بجھائی۔ پانی پینے کے بعد وہ بہت خوش ہوا اور خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگا۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکل حالات میں ہمت اور عقل سے کام لیا جائے، تو کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کوا اگر ہمت ہار جاتا یا جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ کرتا، تو شاید وہ پیاسا ہی رہ جاتا۔ لیکن اس نے عقل مندی سے سوچا اور اپنے مسئلے کا حل نکالا۔

یہ کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ زندگی میں جب بھی مشکل حالات کا سامنا ہو، ہمیں ہمت اور صبر سے کام لینا چاہیے۔

Advertisement