I found this great deal on Daraz! Check it out!
Product Name: Round Shape Floor Cushion Velvet – Best Quality
Product Price: Rs.1,499
Discount Price: Rs.1,171.82
https://s.daraz.pk/s.Zhhwm?cc
Round Shape Floor Cushion Velvet – Best Quality
آئینہ
چوتھی قسط
زبیدہ نے نقشے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ایک پراسرار جھیل کے کنارے پہنچ کر رک گئی۔ جھیل کی سطح آئینے کی طرح چمک رہی تھی، اور اس میں وہ خود کو دیکھ سکتی تھی، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جھیل میں اس کا عکس مختلف تھا۔ اس کا عکس اسے اشارہ کر رہا تھا کہ جھیل کے اندر چھلانگ لگائے۔
زبیدہ تذبذب کا شکار ہو گئی۔ “یہ جھیل کہیں دھوکہ تو نہیں؟” اس نے خود سے سوچا۔ لیکن نقشے پر واضح نشان تھا کہ جھیل کے اندر ایک راستہ ہے۔ ہمت جٹا کر اس نے جھیل میں قدم رکھا۔ جیسے ہی اس کا جسم پانی سے ٹکرا، وہ پانی کی بجائے کسی سرنگ میں گزر رہی تھی، اور لمحوں میں وہ ایک نئی جگہ پر پہنچ گئی۔ یہ جگہ کسی پرانے محل کے کھنڈر کی مانند تھی، جہاں ہر طرف زنگ آلود دروازے اور خوفناک مجسمے تھے۔
ادھر علی، جو اندھیرے جنگل میں چل رہا تھا، اچانک ایک بڑی چٹان کے سامنے رک گیا۔ چٹان پر ایک پراسرار لکھائی تھی: “جو راستہ تم چاہتے ہو، وہی تمہارے دل کا امتحان ہے۔” علی نے اس تحریر کو غور سے دیکھا اور ایک چھوٹے سوراخ کے اندر روشنی دیکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا۔ اچانک، چٹان ہلنے لگی، اور ایک دروازہ کھل گیا۔
علی نے اس دروازے کے اندر قدم رکھا اور خود کو ایک عجیب مقام پر پایا جہاں ہر طرف روشنی اور سایوں کا کھیل جاری تھا۔ وہاں ایک بوڑھا شخص موجود تھا جس نے علی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا، “تم اپنی ہمت کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہو، لیکن تمہیں زبیدہ کو بچانے کے لیے اپنی سب سے بڑی قربانی دینی ہوگی۔”
علی نے حیرت سے پوچھا، “کیسی قربانی؟”
بوڑھے شخص نے ایک پرانا صندوق کھولا، جس میں ایک چھوٹا سا شیشہ رکھا تھا۔ “یہ شیشہ آئینے کی طاقت کو قابو میں کر سکتا ہے، لیکن اسے استعمال کرنے کے لیے تمہیں اپنی سب سے قیمتی یاد قربان کرنی ہوگی۔ وہ یاد جس سے تمہاری شخصیت جڑی ہوئی ہے۔”
ادھر زبیدہ، محل کے کھنڈرات میں ایک بند دروازے کے سامنے کھڑی تھی، جو خود بخود کھل گیا۔ اندر ایک بڑی میز پر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی، جس پر قدیم زبان میں کچھ تحریر تھا۔ جیسے ہی زبیدہ نے کتاب کو چھوا، ایک خوفناک آواز گونجی: “تم نے یہ کتاب چھیڑ کر آزمائش کو چالو کر دیا ہے!”
کتاب کے صفحے خود بخود پلٹنے لگے، اور زبیدہ کے ارد گرد سایوں کا ایک دائرہ بننے لگا۔ وہ سایے تیزی سے اس کے قریب آ رہے تھے۔ زبیدہ نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ ہی اس آزمائش سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔
جاری ہے…
اگلی قسط میں:
زبیدہ کتاب کے ذریعے سایوں کو شکست دے پائے گی؟ علی اپنی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگا؟ اور آئینے کا اصل راز کیا ہے؟
Aaina Novel Episode 3
آئینہ
تیسری قسط
زبیدہ نے اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہوئے پراسرار شخصیت کو غور سے دیکھا۔ وہ دھند میں لپٹی ہوئی، کسی پرانے بادشاہ کی مانند لگ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک سنہری چھڑی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ “تم کون ہو؟” زبیدہ نے کانپتے ہوئے پوچھا۔
شخصیت نے گہری آواز میں جواب دیا، “میں اس دنیا کا محافظ ہوں، اور یہاں آنے والے کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ آئینہ کسی عام انسان کے لیے نہیں۔ تم نے یہاں قدم رکھ کر اپنی زندگی کا سب سے بڑا خطرہ مول لیا ہے۔”
زبیدہ کے دل میں خوف کی جگہ تجسس نے لے لی۔ “کیسی آزمائش؟ اور یہ جگہ کیا ہے؟” اس نے ہمت کر کے پوچھا۔
شخصیت نے اشارہ کیا، اور زبیدہ کے سامنے زمین پر ایک نقشہ ظاہر ہو گیا۔ “یہ دنیا آئینے کے اندر چھپی ہوئی ہے، اور یہ تمہاری حقیقت کو آزمانے کے لیے تیار ہے۔ اگر تم اس نقشے پر دی گئی ہدایات پر عمل کرو گی، تو تم اس دنیا سے نکل سکتی ہو۔ لیکن یاد رکھو، ہر قدم پر ایک نیا راز اور ایک نئی مشکل تمہارا انتظار کرے گی۔”
ادھر علی، آئینے کے سامنے کھڑا، تعویذ کے ورد کو مکمل کر چکا تھا۔ آئینہ دوبارہ چمکنے لگا، اور اس میں دھند کی تہیں نظر آئیں۔ علی نے حوصلہ کرتے ہوئے آئینے کو چھوا، اور لمحوں میں وہ خود کو ایک الگ دنیا میں پایا۔ وہ حیران تھا کہ یہ جگہ عام دنیا جیسی کیوں نہیں لگ رہی۔
علی نے کچھ دور زبیدہ کو دیکھا اور اس کی طرف بھاگا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچا، ایک پراسرار دیوار نے دونوں کے درمیان حائل ہو کر علی کو روک دیا۔ زبیدہ نے اسے دیکھتے ہی پکارا، “علی! تم یہاں کیسے آئے؟” علی نے جواب دیا، “میں تمہیں واپس لے جانے آیا ہوں!”
اسی لمحے، محافظ کی آواز گونجی: “یہ دیوار تبھی ہٹے گی جب تم دونوں اپنی آزمائشیں مکمل کرو گے۔ تمہارے فیصلے اور ہمت ہی اس دنیا سے نکلنے کی چابی ہیں۔ لیکن خبردار، یہاں کی ہر چیز تمہارے دشمن جیسی ہو سکتی ہے۔”
علی اور زبیدہ نے ہمت کرتے ہوئے اپنے اپنے راستوں پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ علی نے دیوار کے اس پار ایک اندھیرے جنگل میں قدم رکھا، جہاں ہر طرف خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ زبیدہ نے نقشے کے نشانات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے راستے پر چلنا شروع کیا۔
جاری ہے…
اگلی قسط میں:
علی اور زبیدہ کی آزمائشوں میں کون سی خطرناک رکاوٹیں آئیں گی؟ کیا وہ دونوں دوبارہ مل پائیں گے؟ اور اس دنیا کے راز مزید کس حد تک کھلیں گے؟
Aaina Episode 2
آئینہ
دوسری قسط
علی نے بے بسی کے عالم میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر زبیدہ کو پکارا۔ آئینے کی چمک دھیرے دھیرے مدھم ہو گئی، اور حویلی کی خاموشی مزید گہری ہو گئی۔ علی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ خوف اور حیرت کے ساتھ، اس نے آئینے کو غور سے دیکھا، مگر اب وہ محض ایک عام آئینہ دکھائی دے رہا تھا۔
زبیدہ کے غائب ہونے کی خبر گاؤں میں تیزی سے پھیل گئی۔ علی نے گاؤں کے بزرگوں سے مدد لینے کی کوشش کی، لیکن کوئی بھی آئینے کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ تب ہی ایک بوڑھی عورت، جو گاؤں کے مضافات میں رہتی تھی اور جادو ٹونے کے بارے میں مشہور تھی، علی کے پاس آئی۔
بوڑھی عورت نے کہا، “یہ آئینہ عام نہیں ہے۔ یہ زمانوں سے یہاں موجود ہے اور اس کے اندر ایک الگ دنیا چھپی ہوئی ہے۔ وہ دنیا ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے جن کے دلوں میں جستجو ہو۔ لیکن اس دنیا سے واپس آنا آسان نہیں ہوتا۔”
علی نے اس سے سوال کیا، “تو پھر زبیدہ کو واپس کیسے لایا جا سکتا ہے؟”
بوڑھی عورت نے ایک پرانے صندوق سے ایک کتاب نکالی اور کہا، “یہ کتاب آئینے کے رازوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ لیکن خبردار، آئینہ اپنی حفاظت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔”
زبیدہ دوسری طرف ایک عجیب دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ یہ دنیا کسی خواب کی مانند تھی، لیکن اس میں کچھ عجیب و غریب باتیں تھیں۔ آسمان سرخ تھا، درختوں کے پتے سیاہ، اور ہوا میں ایک عجیب سی مہک تھی۔ زبیدہ نے اپنے ارد گرد دیکھا اور ایک پراسرار آواز سنی، “تم یہاں کیوں آئی ہو؟”
زبیدہ نے پلٹ کر دیکھا تو ایک پراسرار شخصیت، جو کسی انسان اور سایے کا مرکب لگتی تھی، اس کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ شخصیت آہستہ آہستہ زبیدہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ زبیدہ کے دل میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، لیکن اس کے قدم جمے رہے۔
دوسری طرف، علی نے بوڑھی عورت کی کتاب سے ایک تعویذ بنایا اور حویلی میں دوبارہ داخل ہوا۔ اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تعویذ کا ورد شروع کیا۔ جیسے ہی وہ الفاظ پڑھتا گیا، آئینہ دوبارہ چمکنے لگا۔ لیکن اچانک، آئینے سے دھواں نکلنے لگا، اور حویلی کے دروازے خود بخود بند ہو گئے۔
جاری ہے…
اگلی قسط میں:
زبیدہ کو اس عجیب دنیا میں کون سا چیلنج درپیش ہوگا؟ علی کو آئینے کے ذریعے زبیدہ تک پہنچنے میں کیا خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور آئینے کی اصل حقیقت کیا ہے؟
Aaina Episode 1
آئینہ
پہلی قسط
کہانی کا آغاز ایک پرانے حویلی نما مکان سے ہوتا ہے جو گاؤں کے کنارے موجود ہے۔ یہ حویلی برسوں سے ویران پڑی ہے، مگر اس کے بارے میں کئی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ حویلی کے اندر ایک پرانا آئینہ ہے، جو نہ صرف عام آئینہ ہے بلکہ اپنے اندر گزرے وقت کی کہانیاں سموئے ہوئے ہے۔
رات کے وقت، اس حویلی کے قریب سے گزرنے والوں کو ہمیشہ عجیب آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کوئی ہنسنے کی آواز، کوئی سرگوشیاں، اور کبھی کبھی آئینے سے جھلکتی پراسرار روشنی۔ گاؤں کے لوگ حویلی سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ سب کہانیاں زبیدہ کے لیے محض افواہیں تھیں۔
زبیدہ، ایک نوجوان لڑکی جو شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد گاؤں واپس آئی تھی، ایک نڈر اور تجسس بھری طبیعت کی مالک تھی۔ حویلی کی کہانیاں سن کر اس کے دل میں حویلی کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایک دن، جب شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، وہ اپنے کزن علی کے ساتھ حویلی کے دروازے پر پہنچی۔
دروازہ زنگ آلود تھا اور ایک ہلکے دھکے سے کھل گیا۔ اندر کا ماحول خستہ اور پراسرار تھا۔ زبیدہ نے اپنے موبائل کی روشنی جلا کر اندر قدم رکھا۔ پرانی دیواروں پر دراڑیں تھیں، فرش پر گرد جمع تھی، اور ایک عجیب سی خاموشی فضا میں چھائی ہوئی تھی۔ لیکن حویلی کے وسط میں ایک بڑا آئینہ موجود تھا، جس کا فریم سونے جیسا چمکتا تھا۔
زبیدہ آئینے کے قریب گئی اور اس پر ہاتھ پھیرا۔ اچانک، آئینے میں روشنی کی لہر دوڑ گئی اور زبیدہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے آئینے کے دوسری طرف کھینچ لیا ہو۔ علی نے گھبرا کر اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن زبیدہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ آئینہ لمحوں میں دھندلا ہو گیا، اور زبیدہ غائب ہو چکی تھی۔
جاری ہے…
آئندہ قسط میں:
زبیدہ آئینے کی دنیا میں کہاں گئی؟ یہ آئینہ کیا راز چھپائے ہوئے ہے؟ اور علی اسے واپس لانے کے لیے کیا کرے گا؟
Aik Purisrar Bandar Ki Kahani
ایک پراسرار بندر کی کہانی
ایک چھوٹے سے گاؤں کی سنسان گلیوں میں، جہاں دن کے وقت دھوپ کی روشنی بھی دھیمی لگتی تھی، ایک عجیب بندر کا چرچا ہو رہا تھا۔ یہ بندر کسی عام بندر جیسا نہیں تھا بلکہ اس کے رویے اور حرکات میں کچھ ایسا پراسرار تھا جو لوگوں کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ بندر رات کو بولتا ہے، اور کچھ کا دعویٰ تھا کہ وہ سایوں کی طرح گم ہو جاتا ہے۔
رات کی خاموشی میں، جب پورا گاؤں نیند میں ڈوبا ہوتا، یہ بندر گاؤں کے میدان میں نظر آتا۔ اس کی آنکھیں ایسی چمکتی تھیں جیسے انگارے ہوں، اور وہ زمین پر بیٹھ کر اپنے پنجوں سے کچھ کھودنے لگتا۔ گاؤں کے بزرگوں نے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ رات کے وقت اس بندر کے قریب نہ جائیں، کیونکہ وہ کوئی عام جانور نہیں بلکہ شاید کسی آسیب کا اثر تھا۔
ایک رات، گاؤں کے دو بہادر نوجوان، علی اور فہد، جو ان کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس بندر کی حقیقت جاننے کے لیے میدان کی طرف گئے۔ ان کے ہاتھوں میں لالٹین تھی اور دلوں میں خوف کے ساتھ تجسس بھی۔ جب وہ میدان میں پہنچے تو بندر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نظر آیا۔ وہ دونوں چپکے چپکے اس کے قریب پہنچے اور جیسے ہی وہ بندر کے پاس پہنچے، بندر نے اچانک ان کی طرف دیکھا۔ اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں نے ان کے دل دہلا دیے۔
بندر نے اپنی عجیب آواز میں کچھ بولا، جو کسی انسانی زبان سے مشابہہ لگتی تھی۔ علی اور فہد کے قدم منجمد ہو گئے۔ بندر نے زمین سے ایک پرانا صندوق نکالا اور ان دونوں کو اشارہ کیا کہ قریب آئیں۔ خوف اور حیرت کے عالم میں، دونوں نے صندوق کو دیکھا، جس پر قدیم رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ بندر نے اپنے پنجے سے صندوق کھولا، اور اندر سے ایک پرانا نقشہ نکلا۔
یہ نقشہ کسی گمشدہ خزانے کا تھا، لیکن اس پر موجود ہدایات نہایت پیچیدہ تھیں۔ علی اور فہد نے بندر سے پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ خاموشی سے جنگل کی طرف چلا گیا اور گم ہو گیا۔ اگلی صبح گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی، اور اب سب کے ذہن میں یہی سوال تھا: یہ بندر کون تھا؟ کیا وہ واقعی کوئی پراسرار مخلوق تھی یا کسی بڑے راز کا محافظ؟
یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا، لیکن گاؤں کے لوگ اس بندر کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں اور رات کو میدان میں جانے سے کتراتے ہیں۔
Kashti aur Samunder
کشتی اور سمندر
رات گہری ہو چکی تھی۔ سمندر کی موجیں خاموشی سے گنگنا رہی تھیں، لیکن ان کے اندر چھپے طوفان کی ہلکی سی جھلک محسوس ہو رہی تھی۔ ایک پرانی لکڑی کی کشتی سمندر کے وسط میں ہچکولے کھا رہی تھی، جیسے کوئی چھوٹا کھلونا بڑے پانی کے کھیل کا شکار ہو۔
کشتی میں تین افراد تھے: حسن، زبیر، اور عارف۔ تینوں دوست تھے، مگر آج ان کے چہرے پر خوف کے سائے تھے۔ انہوں نے تین دن پہلے ایک مہم جوئی کا فیصلہ کیا تھا، اور یہ فیصلہ ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔
تین دن پہلے، حسن نے اپنے دوستوں کو ایک پرانی کتاب دکھائی تھی۔ کتاب کے مطابق، ایک خزانہ سمندر کے وسط میں کسی پرانی غرق شدہ کشتی میں چھپا ہوا تھا۔ حسن کا ماننا تھا کہ وہ اس خزانے کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ زبیر نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد رضامندی ظاہر کی، مگر عارف کو شک تھا کہ یہ سب ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں۔
“عارف، زندگی میں خطرے نہ اٹھائے جائیں تو کہانی کہاں بنتی ہے؟” حسن نے کہا تھا۔
“لیکن خطرہ لینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے،” عارف نے جواب دیا تھا۔
سمندر میں سفر کے پہلے دن سب کچھ ٹھیک تھا۔ موجیں ہموار تھیں، اور ہوا میں تازگی تھی۔ لیکن دوسرے دن جب وہ کتاب میں درج جگہ کے قریب پہنچے، تو موسم اچانک بدل گیا۔ بادل گہرے ہونے لگے، اور ہوا خوفناک آوازیں نکالنے لگی۔
اچانک کشتی کے نیچے سے ایک عجیب آواز آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے کشتی کے نیچے سے زور سے مارا ہو۔ زبیر نے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر اندھیرے کے سوا کچھ نہ نظر آیا۔
“یہ کیا تھا؟” عارف نے گھبرا کر پوچھا۔
“شاید کوئی مچھلی ہو،” حسن نے لاپرواہی سے کہا، لیکن اس کی آواز میں چھپی پریشانی واضح تھی۔
تیسرے دن وہ آخرکار اس جگہ پہنچے جہاں کتاب کے مطابق خزانہ ہونا تھا۔ حسن نے نقشہ نکالا اور ان کا راستہ دکھایا۔ وہ جگہ سمندر کے درمیان ایک گہرے گڑھے میں تھی۔ کشتی رک گئی، اور حسن نے غوطہ لگانے کی تیاری شروع کی۔
“کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ محفوظ ہے؟” عارف نے کہا۔
“ہمیں یہ کرنے کی ضرورت ہے،” حسن نے جواب دیا۔
حسن نے پانی میں غوطہ لگایا۔ نیچے اندھیرا تھا، لیکن اس کے دل میں جوش تھا۔ چند لمحوں کے بعد وہ ایک پرانی غرق شدہ کشتی کے قریب پہنچ گیا۔ کشتی کے اندر ایک صندوق تھا، جس پر عجیب و غریب نقوش کندہ تھے۔
حسن نے صندوق کھولا تو اندر سے روشنی پھوٹنے لگی۔ مگر روشنی کے ساتھ ہی، پانی میں عجیب ہلچل شروع ہوگئی۔ ایسا لگا جیسے سمندر کا پانی زندہ ہوگیا ہو۔ حسن نے جلدی سے صندوق بند کیا اور کشتی کی طرف واپس تیرنا شروع کیا۔
جب وہ واپس پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ عارف اور زبیر کشتی کے کونے میں کھڑے کانپ رہے تھے۔
“کیا ہوا؟” حسن نے پوچھا۔
“ہم نے کچھ سنا، جیسے کوئی ہمارے آس پاس ہو،” زبیر نے کہا۔
رات کے وقت کشتی میں عجیب و غریب واقعات شروع ہو گئے۔ کشتی ہچکولے کھانے لگی، اور پانی سے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان کے قریب آ رہا ہو۔
“یہ سب اس صندوق کی وجہ سے ہے!” عارف نے چیخ کر کہا۔
“ہمیں اسے سمندر میں واپس پھینکنا ہوگا،” زبیر نے کہا۔
حسن نے انکار کیا۔ “ہم نے اتنی محنت کی ہے۔ یہ خزانہ ہمارا ہے!”
لیکن اس کے الفاظ کے ساتھ ہی، پانی میں سے ایک بڑا سایہ نمودار ہوا۔ وہ کسی جانور کی طرح نظر آتا تھا، مگر اس کی آنکھیں انسانوں جیسی تھیں۔ وہ کشتی کے قریب آیا، اور اچانک کشتی ہلنے لگی۔
عارف نے صندوق اٹھایا اور سمندر میں پھینک دیا۔ سایہ فوراً غائب ہوگیا، اور سمندر ایک دم پرسکون ہوگیا۔
“یہ کیا تھا؟” زبیر نے گھبرا کر کہا۔
“یہ کچھ ایسا تھا جو انسانوں کے لیے نہیں تھا،” عارف نے دھیمی آواز میں کہا۔
وہ تینوں زندہ تو بچ گئے، لیکن اس رات کے بعد ان کے دل میں سمندر کے لیے ہمیشہ کے لیے خوف بیٹھ گیا۔ انہوں نے اس مہم جوئی کے بارے میں کسی کو نہ بتایا، لیکن ان کی آنکھوں میں وہ دہشت ہمیشہ کے لیے قید ہوگئی۔
Aik Purisrar Ulu Urdu Story
(Urdu Story) ایک پراسرار الو کی کہانی
یہ کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں “درخت نگر” کی ہے، جو اپنے گھنے جنگلات اور پراسرار ماحول کی وجہ سے مشہور تھا۔ گاؤں کے باہر ایک قدیم برگد کا درخت تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں ایک عجیب و غریب الو رہتا ہے۔ اس الو کے بارے میں گاؤں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ وہ عام الو نہیں بلکہ ایک آسیب زدہ مخلوق ہے، جو رات کے اندھیرے میں اپنا شکار ڈھونڈتا ہے۔
یہ سردیوں کی ایک تاریک رات تھی، جب ہوا میں ایک عجیب سی خنکی اور پراسراریت چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ایسے میں رحمان، ایک نوجوان جو گاؤں میں نیا آیا تھا، اس الو کی کہانی کو سن کر ہنسنے لگا۔
“یہ سب کہانیاں جھوٹ ہیں۔ ایک الو کسی کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا!” رحمان نے اپنے دوستوں کو یقین دلایا۔
“رحمان! یہ الو عام پرندہ نہیں ہے۔ رات کو اس کی آنکھوں میں مت دیکھنا، ورنہ تم پر اس کا جادو ہو جائے گا!”
رحمان نے ان سب باتوں کو مذاق سمجھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اس الو کی حقیقت خود جا کر معلوم کرے گا۔
اگلی رات رحمان نے ایک ٹارچ اور اپنی چھوٹی ڈائری لی اور برگد کے درخت کی طرف روانہ ہوا۔ گاؤں کے بزرگوں نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ باز نہ آیا۔
“اگر یہ الو واقعی کوئی پراسرار مخلوق ہے تو میں اسے ضرور دیکھنا چاہوں گا۔” رحمان نے کہا۔
درخت کے قریب پہنچتے ہی فضا بدل گئی۔ ہوا کے جھونکے تیز ہو گئے، اور ایک عجیب سی سنسناہٹ ہر طرف پھیل گئی۔ برگد کے درخت کے قریب پہنچ کر رحمان نے اپنی ٹارچ جلائی، لیکن روشنی جیسے اس پراسرار اندھیرے میں گم ہو گئی ہو۔
اچانک، ایک زوردار آواز سنائی دی: “ہُو… ہُو…”
رحمان نے اوپر دیکھا۔ درخت کی سب سے اونچی شاخ پر ایک بڑا الو بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں اور اس کے پروں کا رنگ گہرا سیاہ تھا۔
الو نے اپنی گردن کو آہستہ آہستہ گھمایا اور سیدھا رحمان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک ایسی کشش تھی جس سے رحمان اپنی نظریں ہٹا نہ سکا۔ اچانک الو نے اپنی چونچ سے ایک زوردار چیخ ماری اور درخت سے اڑ کر نیچے آیا۔
رحمان کے قدم جم گئے۔ الو اس کے سامنے زمین پر اتر آیا اور عجیب انداز میں چلنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی پیغام دینا چاہتا ہے۔ رحمان نے اپنی جیب سے نوٹ بک نکالی اور الو کی حرکات لکھنا شروع کر دیں۔
اسی دوران الو نے ایک بار پھر چیخ ماری اور برگد کے درخت کی ایک جڑ کی طرف اشارہ کیا۔
رحمان نے قریب جا کر دیکھا تو زمین پر ایک پرانا دروازہ تھا، جسے جھاڑیوں اور مٹی سے چھپایا گیا تھا۔
“یہ کیا ہو سکتا ہے؟” رحمان نے خود سے کہا۔
اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر دروازے کو کھولا۔ اندر ایک تاریک سرنگ تھی، جو کہیں نیچے جا رہی تھی۔
رحمان نے ٹارچ روشن کی اور سرنگ میں اترنے لگا۔ سرنگ کی دیواروں پر عجیب و غریب نشان اور نقوش بنے ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر وہ خوفزدہ ہونے لگا۔ کچھ قدم آگے بڑھنے کے بعد اسے سرنگ کے اختتام پر ایک چھوٹا سا کمرہ دکھائی دیا۔
کمرے کے اندر پہنچ کر رحمان نے دیکھا کہ وہاں ایک میز پر ایک پرانی کتاب رکھی ہوئی ہے، جس کے ارد گرد موم بتیاں جل رہی تھیں۔ کتاب کے قریب ایک الو کا مجسمہ تھا، جو بالکل اسی الو جیسا لگ رہا تھا جسے رحمان نے درخت پر دیکھا تھا۔
رحمان نے کتاب اٹھائی اور اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ کتاب میں ایک پراسرار جادو کا ذکر تھا، جو اس الو کے ذریعے کیا جا سکتا تھا۔
“یہ الو ایک عام پرندہ نہیں ہے، بلکہ کسی قدیم جادوگر کی مخلوق ہے!” کتاب کے الفاظ پڑھ کر رحمان کے ہاتھ کانپنے لگے۔
اچانک کمرے کے باہر سے الو کی خوفناک آواز گونجنے لگی۔ رحمان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو الو سرنگ میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ اپنی بڑی آنکھوں سے سیدھا رحمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
الو نے ایک زوردار چیخ ماری اور اپنی چونچ سے رحمان پر حملہ کر دیا۔ رحمان نے خود کو بچانے کی کوشش کی، مگر وہ زخمی ہو گیا۔
رحمان نے جلدی سے کتاب کو واپس میز پر رکھا اور سرنگ سے باہر بھاگنے کی کوشش کی۔ الو اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔
کسی طرح رحمان سرنگ سے باہر نکلا اور درخت کی طرف دوڑ لگائی۔ گاؤں کے کچھ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے، جو رحمان کو ڈھونڈنے آئے تھے۔
“رحمان! تم ٹھیک ہو؟” ایک بزرگ نے پوچھا۔
رحمان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا:
“وہ الو… وہ واقعی آسیب زدہ ہے! میں نے اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا دیکھا جو عام نہیں تھا۔”
اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگ اس برگد کے درخت کے قریب جانے سے ہمیشہ کے لیے ڈرنے لگے۔ رحمان نے گاؤں چھوڑ دیا اور اس نے کبھی کسی کو اس کتاب یا سرنگ کے بارے میں نہیں بتایا۔
الو آج بھی اس درخت پر موجود ہے۔ رات کے وقت جب گاؤں میں اندھیرا چھا جاتا ہے، تو اس کی آواز گونجتی ہے:
“ہُو… ہُو…”
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ بعض راز ایسے ہوتے ہیں جنہیں جاننے کی کوشش ہمیں خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ پراسراریت کو کبھی کبھی پراسرار رہنے دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
Jungle Ke Raaz
جنگل کے راز
ایک گہرا اور پراسرار جنگل تھا جسے مقامی لوگ “ساہس” کہتے تھے۔ یہ جنگل اپنے گھنے درختوں، خطرناک درندوں اور رات کے وقت کی عجیب و غریب آوازوں کے لیے مشہور تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جو بھی اس جنگل میں داخل ہوتا، وہ یا تو واپس نہیں آتا یا پھر ایسی کہانیاں سناتا جن پر یقین کرنا مشکل ہوتا۔
ایک دن جنگل کے جانوروں نے محسوس کیا کہ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ ہرن، بندر، اور خرگوش سب نے شکایت کی کہ جنگل میں وہ سکون نہیں رہا جو پہلے تھا۔ شیر، جو جنگل کا بادشاہ تھا، ان سب کی شکایات سن کر فکر مند ہو گیا۔
رات کے وقت جنگل میں ایک پراسرار گونج سنائی دینے لگی۔ درختوں کے درمیان عجیب سایے جھلکنے لگے، اور چھوٹے جانوروں کے غائب ہونے کی خبریں عام ہو گئیں۔ جانوروں کے درمیان خوف بڑھنے لگا۔
شیر نے جنگل کے سب سے بوڑھے اور عقل مند الو “چاند” کو بلایا۔ چاند الو نے کہا:
“یہ جنگل کا کوئی عام مسئلہ نہیں لگتا۔ شاید یہ جنگل کے قدیم رازوں میں سے کوئی ہے۔ ہمیں اس کا پتہ لگانا ہوگا ورنہ جنگل کا امن برباد ہو جائے گا۔”
چاند الو نے مشورہ دیا کہ شیر ایک ٹیم بنائے جو اس پراسرار معاملے کی تحقیق کرے۔ اس ٹیم میں ہرن، بندر، لومڑی، اور ایک بہادر ہاتھی کو شامل کیا گیا۔
یہ ٹیم رات کے وقت تحقیق کے لیے نکلی۔ جنگل کی گہری تاریکی اور پراسرار آوازوں نے ان کے دل دہلا دیے، لیکن وہ بہادری سے آگے بڑھتے رہے۔
لومڑی نے کہا:
“ہمیں اس گونج کا پیچھا کرنا ہوگا۔ یہ شاید ہمیں جواب تک لے جائے۔”
جب وہ آواز کے قریب پہنچے تو انہیں ایک پرانا کھنڈر ملا جو جھاڑیوں اور درختوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ کھنڈر پر عجیب نقوش بنے ہوئے تھے جنہیں چاند الو بھی نہ سمجھ سکا۔
کھنڈر کے قریب ایک غار تھا جس سے وہ گونج نکل رہی تھی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ وہ غار کے اندر جائیں گے۔
غار کے اندر ماحول بہت ٹھنڈا اور ڈراؤنا تھا۔ ہرن نے کہا:
“مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں یہاں مزید جانا چاہیے۔”
لیکن بندر، جو بہت تجسس پسند تھا، آگے بڑھتا گیا۔ اچانک، ایک دیوار پر اس نے قدیم تصویریں دیکھیں جن میں جنگل کے جانور ایک دیوہیکل پرندے سے لڑتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔
چاند الو نے کہا:
“یہ کہانی مجھے یاد ہے۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ اس جنگل میں کبھی ایک دیوہیکل پرندہ ‘شاگور’ رہتا تھا۔ وہ جانوروں کو شکار کرتا تھا اور خوف کا باعث بنتا تھا۔ لیکن اسے برسوں پہلے قید کر دیا گیا تھا۔”
بندر نے حیرت سے پوچھا:
“کیا یہ ممکن ہے کہ وہ پرندہ پھر زندہ ہو گیا ہو؟”
اچانک غار کے اندر سے ایک زوردار دھاڑ سنائی دی۔ غار لرزنے لگا، اور ایک بڑی مخلوق کی پرچھائیں دیواروں پر نظر آنے لگی۔ ہاتھی نے سب کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔
“یہ جگہ بہت خطرناک ہے۔ ہمیں واپس جانا ہوگا اور جنگل کے باقی جانوروں کو خبردار کرنا ہوگا!”
ٹیم جلدی سے واپس گئی اور تمام جانوروں کو اکٹھا کیا۔ چاند الو نے کہا:
“ہمیں مل کر اس خطرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر یہ دیوہیکل پرندہ ‘شاگور’ واقعی آزاد ہو گیا ہے تو ہمیں اسے دوبارہ قید کرنا ہوگا۔”
شیر نے سب کو ہمت دلائی اور کہا:
“ہم جنگل کے بادشاہ ہیں۔ ہمیں اپنی زمین کی حفاظت کرنی ہے۔ سب کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا!”
تمام جانوروں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ شاگور کو جنگل کے ایک خاص علاقے میں لالچ دے کر لایا گیا، جہاں ایک مضبوط جال تیار کیا گیا تھا۔ ہاتھیوں نے اپنی طاقت سے جال کو مضبوط کیا، بندروں نے درختوں سے پھل اور پتھر پھینک کر اسے بھگانے کی کوشش کی، اور الو نے اپنی عقلمندی سے شاگور کو جال کی طرف دھکیلا۔
آخرکار، شاگور جال میں پھنس گیا۔ جنگل کے جانوروں نے خوشی کا اظہار کیا۔
چاند الو نے کہا:
“یہ ہماری یکجہتی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے جنگل کو بچا لیا۔ لیکن ہمیں ہمیشہ چوکنا رہنا ہوگا تاکہ آئندہ کوئی خطرہ ہمیں کمزور نہ کر سکے۔”
شاگور کو دوبارہ غار میں بند کر دیا گیا، اور اس بار غار کے دروازے پر ایک مضبوط جادوئی مہر لگا دی گئی۔ جنگل میں پھر سے سکون لوٹ آیا، اور جانوروں نے عہد کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے تیار رہیں گے۔
Aik Khawab Ki Tabeer Urdu Story
(Urdu Story) ایک خواب کی تعبیر
رات کی تاریکی میں چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔ گاؤں کے چھوٹے سے مکان میں مریم اپنی چارپائی پر بیٹھ کر سوچوں میں گم تھی۔ اس کی آنکھوں میں خواب تھے، لیکن دل میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ غربت نے اس کی زندگی کو اس طرح جکڑ رکھا تھا جیسے دھوپ کی تپش درخت کی چھاؤں کو۔
مریم کی ماں بیمار تھی، اور اس کے علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اس کا باپ مزدور تھا، لیکن اس کی کمائی صرف گھر کا چولہا جلانے کے لیے ہی کافی تھی۔ مریم کو پڑھائی کا بہت شوق تھا، لیکن گاؤں کی اسکول کی چاردیواری کے اندر قدم رکھنا اس کے لیے ایک خواب جیسا تھا۔
“بیٹی، ہم غریب ہیں۔ تمہارے خوابوں کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں،” مریم کی ماں نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
“ماں، میں کچھ بھی کروں گی، لیکن اپنے خوابوں کو حقیقت بناؤں گی۔” مریم نے پرعزم لہجے میں جواب دیا۔
ایک دن گاؤں میں اعلان ہوا کہ شہر کی ایک بڑی فلاحی تنظیم اسکول کے بچوں کے لیے وظیفے کا امتحان لینے آ رہی ہے۔ یہ خبر سن کر مریم کی آنکھوں میں امید کی کرن جگمگانے لگی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ اسکول میں داخل نہیں تھی اور اس کے پاس کتابیں بھی نہیں تھیں۔
مریم نے اپنی دوست ثریا سے کتابیں ادھار لیں اور دن رات محنت کرنے لگی۔ وہ خود پڑھتی اور اپنی ماں کو بھی امید دلاتی کہ ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔
امتحان کا دن آیا تو مریم کے دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا ہر جواب صحیح ہو، کیونکہ یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا موقع تھا۔ امتحان دینے کے بعد وہ گاؤں کی مسجد میں جا کر دعا کرنے لگی، “یا اللہ، میرے خوابوں کو حقیقت بنا دے۔”
ایک ماہ گزر گیا۔ ہر دن مریم کے لیے قیامت کی گھڑی جیسا تھا۔ آخرکار وہ دن آیا جب وظیفے کے نتائج کا اعلان ہوا۔ مریم کو گاؤں کے اسکول کے استاد نے بلایا اور کہا، “مریم، تم نے وظیفہ جیت لیا ہے! اب تم شہر کے بہترین اسکول میں پڑھ سکتی ہو۔”
یہ خبر سن کر مریم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ جانتی تھی کہ یہ اس کی محنت اور دعا کا نتیجہ ہے۔
مریم نے شہر کے اسکول میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیم کا سفر شروع کیا۔ اس نے دن رات محنت کی اور ہر امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ وقت کے ساتھ وہ ایک مشہور ڈاکٹر بن گئی۔
جب وہ گاؤں واپس آئی تو اس کی ماں کی آنکھوں میں فخر اور خوشی تھی۔ مریم نے نہ صرف اپنی ماں کا علاج کروایا بلکہ گاؤں میں ایک کلینک بھی کھولا تاکہ کوئی اور غربت کی وجہ سے علاج سے محروم نہ رہے۔
مریم کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ خوابوں کو پورا کرنے کے لیے عزم، محنت، اور دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غربت، مشکلات، اور مسائل کبھی بھی انسان کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے اگر وہ اپنی منزل پر یقین رکھے۔