ایک پرانا مکان
یہ کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں کی ہے جہاں دور دور تک کھیت اور درخت ہی نظر آتے تھے۔ اس گاؤں کے باہر ایک پرانا مکان تھا جسے لوگ “بھوت بنگلہ” کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ مکان ایک ویران سڑک کے کنارے بنا ہوا تھا جس کی دیواریں مٹی سے بنی تھیں اور چھت لکڑی کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مکان بوسیدہ ہوتا گیا، دیواروں پر دراڑیں پڑ گئیں اور چھت کا آدھا حصہ گر گیا۔
گاؤں کے لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ مکان کسی زمانے میں ایک رئیس کی ملکیت تھا جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں رہتا تھا۔ رئیس کا نام جان محمد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جان محمد کا بیٹا اور بیٹی ایک رات اچانک لاپتہ ہو گئے تھے اور رئیس کے گھر والوں نے انہیں بہت تلاش کیا لیکن وہ کبھی نہیں ملے۔
رئیس جان محمد کے مرنے کے بعد یہ مکان خالی ہوگیا اور کچھ عرصے بعد ہی لوگوں نے وہاں عجیب و غریب آوازیں سننا شروع کر دیں۔ رات کے وقت کبھی چیخوں کی آواز آتی، کبھی کسی کے چلنے کی اور کبھی بچوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ جان محمد کے بچے شاید اب بھی اس مکان میں قید ہیں اور ان کی روحیں بھٹک رہی ہیں۔
ایک دن، گاؤں کے ایک نوجوان، عادل، نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مکان میں جائے گا اور دیکھے گا کہ وہاں کیا ہے۔ گاؤں کے لوگ اسے منع کرتے رہے لیکن عادل نے ان کی ایک نہ سنی۔ وہ رات کے وقت اپنے چند دوستوں کے ساتھ مکان میں داخل ہوا۔ مکان کے اندر قدم رکھتے ہی اسے سردی کا ایک جھونکا محسوس ہوا، جیسے کوئی اس کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہو۔
اندر کا ماحول بہت پراسرار تھا، درختوں کی سرسراہٹ، ہوا کی آواز اور چھت سے ٹپکتی بوندیں خوفناک ماحول بنا رہی تھیں۔ عادل اور اس کے دوستوں نے ایک ایک کمرہ دیکھا۔ ایک کمرے میں انہیں بچوں کے کھیلنے کے کھلونے ملے، جیسے کہ کوئی ابھی یہاں کھیل رہا ہو۔
جب وہ مکان کے آخری کمرے میں پہنچے تو انہیں ایک لکڑی کا صندوق ملا۔ صندوق پر مٹی کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔ عادل نے صندوق کھولا تو اندر پرانے کپڑے، کچھ سکے اور ایک تصویری البم تھی۔ اس البم میں رئیس جان محمد کے خاندان کی تصاویر تھیں اور آخری صفحے پر ایک خونی ہاتھ کا نشان تھا، جیسے کسی نے یہ البم آخری وقت میں چھوڑی ہو۔
اسی لمحے، عادل کے دوستوں نے محسوس کیا کہ ان کے ارد گرد کچھ حرکت ہو رہی ہے۔ انہوں نے فوراً مکان سے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر دروازہ اچانک بند ہوگیا۔ عادل اور اس کے دوست خوف سے کانپنے لگے، ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ انہوں نے پوری قوت سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں کھل رہا تھا۔
عادل نے اپنی جیب سے ٹارچ نکالی اور ارد گرد دیکھا تو ایک دھندلا سایہ ان کے قریب آتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ سایہ ایک بچے کی شکل کا تھا، اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور چہرے پر زخموں کے نشان تھے۔ اس نے عادل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور آہستہ سے کہا، “ہمارا ساتھ دو، ہمیں یہاں سے نکالو!”
یہ آواز سنتے ہی عادل کے دوستوں نے چیخ ماری اور دروازے کی طرف دوڑے۔ ان کے دوڑتے ہی دروازہ خود بخود کھل گیا اور وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلے، مکان کے اندر سے ایک زور دار چیخ سنائی دی اور دروازہ دوبارہ بند ہوگیا۔
اگلے دن عادل اور اس کے دوستوں نے گاؤں کے بزرگوں کو اس واقعے کے بارے میں بتایا۔ بزرگوں نے کہا کہ یہ بچے شاید کسی وجہ سے اس مکان میں قید ہوگئے ہیں اور ان کی روحیں اب بھی وہاں بھٹک رہی ہیں۔ انہوں نے عادل کو نصیحت کی کہ وہ دوبارہ اس مکان میں نہ جائے۔
عادل نے اس واقعے کے بعد کبھی بھی اس مکان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کی اور یہ مکان آج بھی ویسا ہی سنسان اور ویران کھڑا ہے۔ لوگ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے دعا پڑھتے ہیں اور کبھی اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے۔