ایک پراسرار بندر کی کہانی
ایک چھوٹے سے گاؤں کی سنسان گلیوں میں، جہاں دن کے وقت دھوپ کی روشنی بھی دھیمی لگتی تھی، ایک عجیب بندر کا چرچا ہو رہا تھا۔ یہ بندر کسی عام بندر جیسا نہیں تھا بلکہ اس کے رویے اور حرکات میں کچھ ایسا پراسرار تھا جو لوگوں کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ بندر رات کو بولتا ہے، اور کچھ کا دعویٰ تھا کہ وہ سایوں کی طرح گم ہو جاتا ہے۔
رات کی خاموشی میں، جب پورا گاؤں نیند میں ڈوبا ہوتا، یہ بندر گاؤں کے میدان میں نظر آتا۔ اس کی آنکھیں ایسی چمکتی تھیں جیسے انگارے ہوں، اور وہ زمین پر بیٹھ کر اپنے پنجوں سے کچھ کھودنے لگتا۔ گاؤں کے بزرگوں نے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ رات کے وقت اس بندر کے قریب نہ جائیں، کیونکہ وہ کوئی عام جانور نہیں بلکہ شاید کسی آسیب کا اثر تھا۔
ایک رات، گاؤں کے دو بہادر نوجوان، علی اور فہد، جو ان کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس بندر کی حقیقت جاننے کے لیے میدان کی طرف گئے۔ ان کے ہاتھوں میں لالٹین تھی اور دلوں میں خوف کے ساتھ تجسس بھی۔ جب وہ میدان میں پہنچے تو بندر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نظر آیا۔ وہ دونوں چپکے چپکے اس کے قریب پہنچے اور جیسے ہی وہ بندر کے پاس پہنچے، بندر نے اچانک ان کی طرف دیکھا۔ اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں نے ان کے دل دہلا دیے۔
بندر نے اپنی عجیب آواز میں کچھ بولا، جو کسی انسانی زبان سے مشابہہ لگتی تھی۔ علی اور فہد کے قدم منجمد ہو گئے۔ بندر نے زمین سے ایک پرانا صندوق نکالا اور ان دونوں کو اشارہ کیا کہ قریب آئیں۔ خوف اور حیرت کے عالم میں، دونوں نے صندوق کو دیکھا، جس پر قدیم رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ بندر نے اپنے پنجے سے صندوق کھولا، اور اندر سے ایک پرانا نقشہ نکلا۔
یہ نقشہ کسی گمشدہ خزانے کا تھا، لیکن اس پر موجود ہدایات نہایت پیچیدہ تھیں۔ علی اور فہد نے بندر سے پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ خاموشی سے جنگل کی طرف چلا گیا اور گم ہو گیا۔ اگلی صبح گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی، اور اب سب کے ذہن میں یہی سوال تھا: یہ بندر کون تھا؟ کیا وہ واقعی کوئی پراسرار مخلوق تھی یا کسی بڑے راز کا محافظ؟
یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا، لیکن گاؤں کے لوگ اس بندر کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں اور رات کو میدان میں جانے سے کتراتے ہیں۔