(Andhera Raaz Horror Urdu Novel) اندھیرا راز اردو ناول
“اندھیرا راز”
مصنف: (محمد شعیب اکرم)
صبح کی دھند میں لپٹی ایک سرد اور خاموش فضا تھی۔ شہر کے کونے میں ایک پرانی اور بوسیدہ عمارت کھڑی تھی جس کا نام “رستم ہاؤس” تھا۔ یہ عمارت کسی زمانے میں شہر کی شان ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ ویران اور بھوت بنگلہ بن چکی تھی۔ ہر کوئی اس کے قریب سے گزرتے ہوئے تھوڑا لرزتا تھا، جیسے اس میں کوئی چھپا ہوا راز ہو۔
علی، ایک نوجوان اور پرجوش صحافی، شہر کے ایک مشہور اخبار میں کام کرتا تھا۔ ایک دن، جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا، اس کے ٹیبل پر ایک نامعلوم خط آ گرا۔ خط پر کوئی نام نہ تھا، صرف یہ لکھا تھا: “رستم ہاؤس کے اندر ایک ایسا راز ہے جو تمہاری زندگی بدل دے گا۔ اگر تمہاری ہمت ہے تو کل رات وہاں آؤ۔”
علی نے خط کو غور سے دیکھا۔ رستم ہاؤس؟ یہ تو وہی جگہ تھی جس کے بارے میں شہر بھر میں خوفناک کہانیاں مشہور تھیں۔ لیکن علی کو ہمیشہ سے پراسرار اور غیر معمولی کہانیوں میں دلچسپی رہی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس دعوت کو قبول کرے گا اور کل رات وہاں جائے گا۔
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور علی نے اپنا سفری بیگ تیار کر لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رستم ہاؤس کے بارے میں لوگ بہت سی باتیں کرتے ہیں، لیکن وہ ایک حقیقت پسند شخص تھا۔ اس کے خیال میں یہ سب محض افسانے تھے۔
وہ سڑکوں پر خاموشی سے چلتا ہوا رستم ہاؤس کے قریب پہنچ گیا۔ عمارت کی ویرانی نے اسے تھوڑا پریشان کیا، لیکن وہ ڈرتا نہیں تھا۔ اس نے جیب سے اپنی ٹارچ نکالی اور قدم اندر کی طرف بڑھایا۔ دروازہ دھیرے سے کھلا، جیسے کسی نے اس کا انتظار کیا ہو۔
اندر داخل ہوتے ہی اسے ایک عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ جگہ جگہ مکڑیوں کے جالے تھے، اور فرش پر دھول جمع تھی۔ علی نے اپنی ٹارچ کی روشنی چاروں طرف گھمائی۔ عمارت کی خاموشی بہت گہری تھی، جیسے ہوا بھی یہاں رک گئی ہو۔ لیکن پھر، ایک آواز آئی۔
“تم آگئے؟”
علی چونک گیا۔ یہ آواز کسی عورت کی تھی، لیکن اسے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ علی نے فوراً اپنی ٹارچ کی روشنی آگے بڑھائی، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، لیکن وہ اپنے قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہاں آیا ہے تو اسے راز کا پتا لگانا ہے۔
علی جیسے ہی آگے بڑھا، اسے ایک پرانی سیڑھی نظر آئی جو اوپر کے کمروں کی طرف جاتی تھی۔ وہ محتاط انداز میں سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ اچانک، اس کے پیچھے ایک سایہ سا ہلکا سا حرکت کرتا دکھائی دیا۔ وہ فوراً مڑا، لیکن کوئی نہیں تھا۔
اوپر پہنچتے ہی اس نے ایک کمرے کا دروازہ دیکھا جو نیم کھلا ہوا تھا۔ اندر سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔ علی نے دھیرے سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرہ بہت پرانا تھا، لیکن وہاں ایک چیز خاص تھی: دیوار پر ایک عجیب سا نقشہ بنا ہوا تھا۔
علی نے دیوار کے قریب جا کر نقشہ کو غور سے دیکھا۔ یہ کوئی عام نقشہ نہیں تھا۔ اس میں کچھ خفیہ نشانات تھے جو کسی جگہ کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ لیکن علی کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا۔ جیسے ہی وہ نقشہ کے بارے میں سوچ رہا تھا، کمرے میں ایک سرد ہوا چلنے لگی، اور دروازہ زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے؟” علی نے اپنے آپ سے کہا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا، لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھا۔
علی نے دیوار کے نقشے کو اپنی نوٹ بک میں نقل کر لیا اور واپس نیچے جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جب وہ واپس سیڑھیوں کی طرف جانے لگا، اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ رکا اور پیچھے دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے اپنی سانس کو قابو میں رکھا اور نیچے جانے لگا۔
عمارت کے نیچے پہنچتے ہی اسے وہی آواز دوبارہ سنائی دی، “تمہیں کیا ملا؟”
علی نے فوراً پوچھا، “تم کون ہو؟ سامنے آؤ!”
لیکن جواب میں صرف خاموشی تھی۔ علی نے دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے زور زور سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔
علی کے ذہن میں خوف کے سائے چھانے لگے، لیکن پھر اسے ایک اور خیال آیا۔ شاید یہ کوئی مذاق تھا؟ شاید کوئی اسے ڈرا رہا تھا؟ لیکن یہ سب کچھ اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ علی کو شک ہونے لگا۔
علی نے آخر کار فیصلہ کیا کہ اسے اس عمارت میں چھپے ہوئے راز کو مکمل طور پر جانچنا ہوگا۔ وہ واپس اوپر کی طرف گیا اور دیوار کے نقشے کو دوبارہ دیکھا۔ اس بار، وہ نشانات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہر نشان کسی نہ کسی مقام کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
پھر، اچانک، علی کو دیوار کے نیچے ایک چھوٹا سا خفیہ دروازہ دکھائی دیا۔ دروازہ بہت چھوٹا تھا اور اس پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ علی نے دروازہ کھولا اور اندر جھانکا۔ وہاں ایک چھوٹا سا صندوق رکھا تھا۔ صندوق پر ایک پرانا تالہ لگا تھا۔
علی نے جلدی سے صندوق کو کھولا اور اس کے اندر ایک پرانی کتاب ملی۔ کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا: “یہ وہ راز ہے جس کی تمہیں تلاش تھی۔ لیکن اگر تم اسے جاننا چاہتے ہو، تو اس کے بعد پیچھے مڑ کر مت دیکھنا!”
علی نے کتاب کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔ ہر صفحے پر لکھا تھا کہ کیسے رستم ہاؤس کے مالک نے اپنی دولت اور طاقت کو حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں قتل کیا۔ اس کے جرائم کو چھپانے کے لئے اس نے اپنے محل کو ایک قید خانہ بنا دیا تھا، جہاں وہ معصوم لوگوں کو قید کر کے ان سے راز نکلواتا اور پھر ان کی جان لے لیتا۔
علی کے ذہن میں دھماکہ ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس راز کو جاننے کا مطلب خطرے میں پڑنا تھا۔ لیکن اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ وہ جلدی سے عمارت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن ہر دروازہ بند ہو چکا تھا۔
اس نے ایک آخری بار پیچھے دیکھا، اور وہاں وہی سایہ دوبارہ نظر آیا۔ لیکن اس بار، وہ سایہ واضح تھا۔ یہ وہی رستم تھا، جس کے بارے میں کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اس کی آنکھیں خونخوار تھیں اور اس کا چہرہ بدترین خوف کا عکاس تھا۔
علی جانتا تھا کہ اب اسے یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے پاس ایک آخری امید تھی: اس نے کتاب کو زور سے دیوار پر مارا، اور اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ عمارت ہلنے لگی، اور علی نے بھاگ کر دروازے کو کھولنے کی کوشش کی۔
عمارت کا ہر حصہ گرنے لگا۔ علی نے اپنی پوری طاقت سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن رستم کا سایہ اس کے پیچھے تھا۔ وہ دروازے کی طرف بھاگا، لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔
پھر اچانک، ایک روشنی کا بلب چمکا اور علی نے اپنے آپ کو باہر پایا۔ وہ سانس لیتے ہوئے زمین پر گر گیا۔ رستم ہاؤس ایک لمحے میں منہدم ہو چکا تھا، اور وہ پراسرار عمارت ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی تھی۔
علی نے جلدی سے اپنی نوٹ بک میں اس راز کو لکھا اور فیصلہ کیا کہ یہ کہانی دنیا کو بتائی جائے گی، تاکہ لوگ جان سکیں کہ اندھیرے میں چھپے راز کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
ختم شد